1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن خاتون کے مبینہ قاتل شاہجہان کے قصبے میں کیا ہو رہا ہے؟

25 اپریل 2017

جلال پور جٹاں کے بازاروں، گلیوں اور محلوں میں ہر جگہ شاہجہان بٹ کی مبینہ واردات کا تذکرہ ہو رہا ہے، لوگ اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ اس کے رشتہ دار گھر کو تالا لگا کر کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2buEv
Pakistan Shahjahan Butt & Ehefrau
تصویر: privat

یہ ہے جلال پور جٹاں۔ لاہور سے 130 کلومیٹر کی مسافت پر دریائے چناب کے کنارے واقع ضلع گجرات کا یہ تاریخی قصبہ ویسے تو دنیا اعلیٰ درجے کے کھڈی کے کپڑے بنانے والی چھوٹی صنعتوں کے حوالے سے جانتی رہی ہے۔ لیکن آج کل ذرائع ابلاغ میں اس کا تذکرہ یہاں کے ایک رہائشی نوجوان شاہجہان بٹ کی وجہ سے سننے میں آ رہا ہے۔ 29 سالہ شاہجہان اپنی مبینہ شریک حیات 41 سالہ ویت نامی جرمن نژاد خاتون کے قتل کے الزام میں جرمن حکام کو مطلوب ہے اور اس کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

جلالپور جٹاں کے علاقے خضر خان ولی کے علاقے میں شاہجہان کے آبائی گھر کے آس پاس موجود محلے داروں کے بقول جب اس واقعے کی اطلاع شاہجہان کی والدہ کو ملی تو وہ شدت غم سے بے بوش ہو گیئں۔ اس وقت جلال پور جٹاں کے بازاروں، گلیوں اور محلوں میں ہر جگہ شاہجہان بٹ کی مبینہ واردات کا تذکرہ ہو رہا ہے، لوگ اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔

جرمنی بھر میں اس پاکستانی کی تلاش

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے

جرمنی: پناہ کی درخواست دینے والے پاکستانیوں کی تعداد میں کمی

جرمن میڈیا کے مطابق شاہجہان بٹ کو آسٹریا کے ایک ریلوے اسٹیشن سے گرفتار کیا جا چکا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ وہ اٹلی جانے کی کوشش میں تھا۔  اس پاکستانی کی گرفتاری کے حوالے سے زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئی ہے تاہم بتایا گیا ہے کہ انہیں جلد ہی جرمنی منتقل کر دیا جائے گا۔

شاہجہان کے ایک محلے دار خالد محمود بھٹی جن کی فیملی کے بہت سے افراد یورپ میں مقیم ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں شاہجہان کے واقعے کا سن کے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ ان کے بقول جرمنی نے تو مہاجرین کی امداد کے لیے بہت سے اقدامات کیے تھے، اب شاہجہان کی وجہ سے بہت سے دوسرے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا اور مہاجرین کے مخالف حلقے اس واقعے کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔

جلالپور جٹاں ایک ایسا قصبہ ہے، جہاں سے بلا مبالغہ سینکڑوں لوگ یورپ اور دیگر ملکوں میں جا کر آباد ہو ہوئے ہیں۔ شاہجہان کی مبینہ واردات نے سمندر پار پاکستانیوں اور ان کے رشتہ داروں میں خوف کی لہر دوڑا دی ہے۔ جرمنی میں مہاجرین کے ایک کیمپ میں مقیم ایک پاکستانی نوجوان وجاہت اسلم نے بتایا کہ جرمنی میں ان تمام پاکستان نوجوانوں سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے، جو کسی نہ کسی طرح شاہجہان بٹ سے رابطے میں تھے۔

اسپین کے شہر میڈرڈ میں ایک فوڈ کمپنی چلانے والے شیخ محسن آج کل اپنے آبائی گھر جلالپور جٹاں آئے ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے رابطہ کرنے پر ان کا کہنا تھا کہ شاہجہان کی اس حرکت سے بیرونی دنیا میں پاکستان کے حوالے سے اچھا میسیج نہیں گیا، سمندر پار پاکستانی اس سانحے کا سن کر سہمے ہوئے ہیں۔ اس واقعے سے پاکستان کے امیج کو بہت نقصان پہنچے گا۔

Pakistan Shahjahan Butt
شاہجہان بٹ غیرقانونی طور پر بطور مہاجر جرمنی داخل ہوا تھاتصویر: privat

جلال پور جٹاں کے تھانہ سٹی کے ایس ایچ او عدنان احمد تارڑ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس واقعے کے بعد پاکستانی ایجنسیاں بھی متحرک ہو گئی ہیں۔ خود انہوں نے بھی خضر خان ولی کے علاقے میں واقع شاہجہان کے گھر پر چھاپہ مارا تھا لیکن اس کے گھر والے گھر کو تالا لگا کر کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہو چکے ہیں۔ ان کے بقول شاہجہان کا کرمنل ریکارڈ تو تھانے میں موجود نہیں ہے البتہ اس کے جاننے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک خیالی دنیا میں رہنے والے ایسا نوجوان تھا جو ہر قیمت پر باہر جا کرراتوں رات امیر بننے کے جنون کا شکار تھا۔ ان کے بقول پاکستانی حکومت آج کل غیر قانونی طور پر لوگوں کو باہر بھیجنے والے لوگوں کے خلاف سخت کارروائیاں کر رہی ہے۔

جلالپور جٹاں کے ایک صحافی شاہد محمود عزیر نے بتایا کہ شاہجہان کے والد، جو مسقط میں معمار کے طور پر کام کرتے تھے، کا انتقال کوئی 20 برس پہلے ہو گیا تھا۔ اس کا ایک بھائی کویت میں مزدوری کرتا ہے۔ اس کی دو بہنیں ہیں، جن کی شادی ہو چکی ہے اور والدہ زاہدہ بی بی دائی کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔ شاہجہان نے سکول کی تعلیم گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول نمبر 2 جلال پور جٹاں سے حاصل کی لیکن وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ اس نے ایک مقامی دفتر میں چائے والے کے طور پر بھی کام کیا اورسن 2009 میں وہ چھ ماہ ہانگ کانگ بھی رہ کر آیا تھا۔

شاہجہان کے محلے داروں سے ملنے والی معلومات کے مطابق شاہجہان بٹ دو سال پہلے ایک ایجنٹ کو 65 ہزار روپے دے کر غیر قانونی طریقے سے ایران اور ترکی سے ہوتا ہوا شام کے مہاجر کے طور جرمنی میں داخل ہوا تھا۔ جرمن شہرڈریسڈن کے قریب ایک مہاجر کیمپ میں رہتے ہوئے وہ ایک دن کام کی تلاش میں شہر آیا، کیمپ واپسی پر ایک ویت نامی نژاد جرمن لڑکی سے لفٹ لی، راستے میں لڑکی کے ساتھ ہونے والے ایک ناخوشگوار واقعے میں اس نے لڑکی کی مدد کی تو لڑکی اسے اپنے گھر لے آئی۔

یوں یہ دونوں اکھٹے رہنے لگے، تاہم  قدامت پسند  پس منظر کے حامل شاہجہان کو اعتراض تھا کہ اس کی مبینہ شریک حیات رات کو تاخیر سے گھر کیوں آتی ہے جبکہ اس کے غیروں سے ملنے جلنے پر بھی وہ اعتراض کرتا تھا۔ دونوں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کی نوبت کئی مرتبہ جھگڑوں اور تصادم تک بھی پہنچ چکی تھی۔ عدم برداشت پر مبنی شاہجہان کے یہی وہ جھگڑے تھے، جو جرمن خاتون کے مبینہ قتل جیسی افسوسناک واردات پر منتج ہوئے۔

جرمنی میں مقیم پاکستانی اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے اس ضمن میں ہونے والی پل پل کی خبریں شئیر کر رہے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی میڈیا نے اس خبر کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے لیکن سوشل میڈیا پر اس واقعے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

جلالپور جٹاں کے ایک شہری طارق ڈار پچھلے 41 برسوں سے برلن میں مقیم ہیں اور وہاں ٹیکسی چلاتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بہت ہی بُرا ہوا ہے، ’’پاکستانی لوگ ایسے نہیں ہوتے، پاکستانی پرامن لوگ ہوتے ہیں‘‘۔ ان کے بقول ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت یہ سوچے کہ شہری اپنے ملک کو چھوڑ کر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کیوں بیرون ملک جا رہے ہیں۔ انہوں نے بین المذاہب مکالمے کے کلچر کو فروغ دینے اور مختلف کلچرز میں رہتے ہوئے برداشت اور رواداری کو فروغ دینے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔