1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے: جرمن چانسلر میرکل

7 اپریل 2011

جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ برلن میں ملاقات کی ہے۔ اس موقع پر مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے حل کے علاوہ خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا۔

https://p.dw.com/p/10pU8
جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: dapd

نیتن یاہو کا جرمنی کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں عمل میں آیا ہے جب اسرائیلی حکومت اس بارے میں متفکر ہے کہ یورپی ممالک کی طرف سے مشرق وسطیٰ کے دیرینہ تنازعے کے حل کے طور پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور میں اضافے کے امکانات ہیں۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ اُن کا ملک ایک ایسی فلسطینی قوم کو تسلیم نہیں کرے گا جو یکطرفہ طور پر اپنے لئے ایک آزاد ریاست کا اعلان کردے۔ انہوں نےجمعرات کو دارلحکومت برلن میں اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے جس سے مراد ایک فلسطینی اور ایک اسرائیلی ریاست ہے۔

Benjamin Netanyahu
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہوتصویر: picture alliance / dpa

میرکل کا اشارہ دراصل اُس فلسطینی منصوبے کی طرف تھا جس نے نیتن یاہو کی حکومت کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ بعض فلسطینی حلقوں کا منصوبہ ہے کہ وہ امن مذاکرات کی بحالی کا انتظار کیے بغیر ستمبر کے ماہ میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کا اعلان کر دیں گے۔ یہی تشویش نیتن یاہو کے اس بار کے جرمنی کے دورے کا سبب بنی ہے۔

جرمن چانسلر نے اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ اپنی بات چیت کو دوستانہ اور مثبت قرار دیا تاہم ان کا بہ بھی کہنا تھا کہ کہیں کہیں مذاکرات سنگین بھی تھے۔ میرکل نے اسرائیلی ریاست کے وجود کے حق کی از سر نو حمایت کی۔ ساتھ ہی ایران کے ایٹمی پروگرام پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ تہران کو جوہری ہتھیارسازی سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ نیز میرکل نے کہا ہے کہ ایران میں جمہوری قوتوں کو کچلنے کی حکومتی کوششیں کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔

اسرائیل اور جرمنی کے دو طرفہ تعلقات کا نہ صرف نہایت حساس تاریخی واقعات پر انحصار ہے بلکہ جرمن حکومت ہر مشکل مرحلے میں اسرائیلی حکومت کا ساتھ دینے کا وعدہ کرتی آئی ہے اور تجدید وفا کے طور پر جرمن سیاستدانوں کی طرف سے بھی اکثرو بیشتر اسرائیل کا دورہ کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصے سے مشرق وسطیٰ سمیت متعدد عرب ممالک میں پائی جانے والے سیاسی بحران نے جہاں اسرائیلی حکام کو تشویش میں ڈالا ہے وہیں یورپ کی سب سے مضبوط اقتصادی قوت جرمنی نے بھی اپنی پریشانی کے اظہار سے گریز نہیں کیا۔ سال رواں شروع ہوتے ہی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔

Israel / Grenzpolizist / Siedlungsbau / Westjordanland
غرب اردن میں تعینات اسرائیلی فوجیتصویر: AP

اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کے دوران میرکل نے اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ کے علاقائی استحکام کے لئے فلسطین کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی پر غور کرے۔ میرکل نے نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصر اور تیونس میں عوامی بغاوت سے پیدا ہونے والی صورتحال کو پورے خطے کے لئے ایک خطرناک سگنل قرار دیا تھا۔

اسی تناظر میں جرمن چانسلر نے اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ اپنےدورے کی پہلی ملاقات میں ہے کہا تھا کہ مصر میں عوامی بغاوت نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے ایسے وقت میں اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن مذاکرات کو جمود سے نکال کر متحرک کرنا اشد ضروری ہو گیا ہے۔ نیتن یاہو نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس طرح کے کٹھن وقت میں اس امر کے امکانات بہت زیادہ ہیں کہ ایک مسلم انتہا پسند گروپ اسرائیل کے پڑوسی ملک مصر میں برسراقتدار نہ آ جائے۔ نیتن یاہو کے بقول ایسا ایران اور دیگر ممالک میں ہو چکا ہے۔

جرمن چانسلر نے نیتن یاہو پر زور دیا تھا کہ ایسے نازک وقت میں اسرائیل کو چاہیے کہ وہ تعمیری کردار ادا کرتے ہوئے امن مذاکرات کی راہ ہموار کرے۔ میرکل اور نیتن یاہو کی جنوری کی اکتیس تاریخ کو ہونے والی اُس ملاقات کے بعد دونوں لیڈروں نے اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ آئندہ چھ ماہ کے دوران تنازعہِ مشرق وسطیٰ کے حل کے لئے امن مذاکرات کی بحالی کے سلسلے میں ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں