1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں دہری شہریت کی منزل قریب تر

امجد علی15 جولائی 2013

جرمن شہریت حاصل کرتے وقت غیر ملکیوں کو اپنے آبائی ممالک کی شہریت چھوڑنا پڑتی ہے۔ قدامت پسند حکومتوں کی وضع کردہ اس پالیسی کے پیچھے اپنے ہی ملک میں اجنبی بن کر رہ جانے اور متوازی معاشرے وجود میں آ جانے کا خوف کارفرما ہے۔

https://p.dw.com/p/197hH
تصویر: Levent Bayram

موجودہ چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین بھی دہری شہریت کے خلاف ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتیں بدستور دہری شہریت کے حق میں آواز بلند کر رہی ہیں۔

سوشل ڈیموکریٹس اور الائنس نائنٹی گرینز نے اپنے دورِ حکومت کے دوران سن 2000ء میں شہریت سے متعلق 1913ء کے قانون کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ غیر ملکیوں کے لیے جرمن شہریت کا حصول آسان بنایا جائے اور دہری شہریت کی بھی اجازت دی جائے۔ اصلاحات کے نتیجے میں اتنی تبدیلی تو ضرور آئی کہ آج کل جرمنی میں پندرہ کی بجائے چھ تا آٹھ سال قیام کے بعد ہی شہریت حاصل کی جا سکتی ہے۔ تاہم ان اصلاحات کی حتمی توثیق کرنے والے ایوانِ بالا نے، جس پر اُس زمانے میں قدامت پسند سی ڈی یُو کو غلبہ حاصل تھا، ایس پی ڈی اور گرینز کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا کہ نئے قانون میں دہری شہریت کی بھی ضمانت دی جائے۔ آج بھی جرمنی میں یہی قانون نافذ ہے اور بہت سے تارکینِ وطن اس پر سراپا احتجاج ہیں۔

ترک وطن اور مہاجرین سے متعلق وفاقی جرمن محکمے کی سوزانے ووربس
ترک وطن اور مہاجرین سے متعلق وفاقی جرمن محکمے کی سوزانے ووربستصویر: Bundesamt für Migration und Flüchtlinge

بہت سے تارکین وطن ایسے ہیں، جن کے آبائی ممالک اصولی طور پر ہی اُن کی شہریت ختم نہیں کرتے۔ ان ملکوں میں مراکش، شام اور ایران کے ساتھ ساتھ کوئی ایک درجن مزید ممالک بھی شامل ہیں۔ ان ممالک کے شہریوں کو جرمن شہریت حاصل کرتے وقت ایک خصوصی درخواست دینا پڑتی ہے، جس کے بعد ان کے لیے جرمنی میں بھی دہری شہریت ممکن ہو جاتی ہے۔

جرمنی میں دہری شہریت رکھنے والے شہریوں میں سابق سوویت یونین سے آنے والے تین ملین جرمن نژاد آباد کاروں کے ساتھ ساتھ امریکی والدین کے بچے اور یورپی یونین کے رکن ملکوں سے جرمنی آ کر آباد ہو جانے والے تمام تارکین وطن بھی شامل ہیں۔ باقی تمام تارکین وطن کو، جو یورپی یونین کے علاوہ کسی ملک سے تعلق رکھتے ہیں، کسی ایک ملک کی شہریت کے حق میں فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔

تارکین وطن کے بچوں کو خاص طور پر مشکلات کا سامنا ہے۔ اپنی عمر کے اٹھارویں سال تک اُن کے پاس دہری شہریت ہوتی ہے لیکن پھر اٹھارہ سے تیئیس سال کی عمر کے دوران اُنہیں جرمن شہریت کے حصول کی درخواست دینے یا نہ دینے کے بارے میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ جرمن شہریت چاہتے ہیں تو پھر اُنہیں اپنے والدین کے آبائی ملک کی شہریت کی منسوخی کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا پڑتا ہے، جس میں کئی کئی مہینے بھی لگ جاتے ہیں۔

ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ترک وطن اور مہاجرین سے متعلق وفاقی جرمن محکمے کی سوزانے ووربس کہتی ہیں:’’جو نوجوان 23 سال کی عمر تک اپنی دوسری شہریت ختم نہیں کرواتے، وہ خود بخود جرمن شہریت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جن نوجوانوں کو دی گئی مہلت گزر جاتی ہے، اُنہیں پھر نئے سرے سے جرمنی میں قیام کے اجازت نامے کی درخواست دائر کرنا پڑتی ہے۔‘‘

دو میں سے کسی ایک شہریت کے انتخاب کا مشکل مرحلہ جرمنی میں تارکین وطن کے سب سے بڑے گروپ یعنی ترک نژاد شہریوں کو بھی درپیش ہے۔ اُن کا ملک ابھی یورپی یونین کا رکن نہیں بنا۔ جرمنی میں پیدا ہونے والے ترک والدین کے بہت سے بچے اپنی ثقافتی پہچان اور وطن سے تعلق کے احساس کو قائم رکھنے کے لیے اپنے ماں باپ کے وطن کا پاسپورٹ بھی رکھنا چاہتے ہیں لیکن جرمن قانون اُنہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ اُنہیں یہ بات غیر منصفانہ لگتی ہے کہ کئی دیگر اقوام کے شہریوں کو دہری شہریت کی اجازت ہے۔

دو میں سے کسی ایک شہریت کے انتخاب کا مشکل مرحلہ جرمنی میں تارکین وطن کے سب سے بڑے گروپ یعنی ترک نژاد شہریوں کو بھی درپیش ہے
دو میں سے کسی ایک شہریت کے انتخاب کا مشکل مرحلہ جرمنی میں تارکین وطن کے سب سے بڑے گروپ یعنی ترک نژاد شہریوں کو بھی درپیش ہےتصویر: picture-alliance/dpa

کئی سال پہلے ترک شہریت ترک کرتے ہوئے جرمن پاسپورٹ حاصل کرنے  والے زرکان توئرن آج فری ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے جرمن پارلیمان کے رکن ہیں تاہم آج وہ کسی ایک شہریت کے حق میں فیصلے کے قانون کو درست نہیں سمجھتے۔ اُن کا موقف یہ ہے کہ تمام تارکین وطن اور اُن کے بچوں کو دہری شہریت کا حق ملنا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں:’’دنیا کے بہت سے دیگر ملکوں میں دہری شہریت کی اجازت ہے۔ اگر ہم ان ممالک کے ساتھ مقابلہ بازی کرتے ہوئے جرمنی کے لیے تربیت یافتہ ماہرین کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں دہری شہریت کو ممکن بنانا ہی ہو گا۔‘‘

فری ڈیموکریٹک پارٹی کے اکثریتی ارکان دہری شہریت کے حامی ہیں۔ گزشتہ چار سال کے دوران مخلوط حکومت کی ساتھی چھوٹی جماعت کے طور پر تو وہ اپنے اس موقف کو نہیں منوا سکے، اب سوال یہ ہے کہ کیا ستمبر میں مجوزہ وفاقی جرمن پارلیمانی انتخابات کے بعد یہ جماعت اپنا سیاسی اثر و رسوخ دکھا سکے گی؟ ایس پی ڈی، گرینز اور بائیں بازو کی جماعت دی لِنکے نے اپنی انتخابی کامیابی کی صورت میں کہہ رکھا ہے کہ وہ دہری شہریت کا اصول نافذ کر دیں گے۔ رائے عامہ کے تازہ جائزوں میں بھی زیادہ سے زیادہ جرمن اس حق میں ہیں کہ غیر ملکیوں کو جرمن شہریت حاصل کرتے وقت اُن کے آبائی ملک کی شہریت بھی رکھنے کی جازت دی جانی چاہیے۔ واضح رہے کہ دہری شہریت کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے ہی جرمن شہریت کے لیے دی جانے والی درخواستوں کی شرح میں نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔