1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنرل پیٹریاس کی برسلز میں نیٹو اتحادیوں سے ملاقات

1 جولائی 2010

افغانستان متعینہ بین الاقوامی فوج کےنئےکمانڈرجنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے شمالی اوقیانوسی دفاعی اتحاد نیٹو کے صدر دفاتر کا دورہ کرکے امریکہ کے اتحادی ملکوں کو افغانستان جنگ سےمتعلق اپنی آئندہ حکمت عملی کے بارے اعتماد میں لیا۔

https://p.dw.com/p/O8Jd
تصویر: AP

جنرل پیٹریاس باضابطہ طور پر افغانستان میں عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کی کمان سنبھالنے سے قبل نیٹو کے سیاسی شعبے میں اٹھائیس رکن ریاستوں کے سفیروں سے خطاب بھی کریں گے۔ وہ آج ہی نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن سے بھی ملے۔

جنرل پیٹریاس نے برسلز میں صحافیوں کو بتایا کہ جنگی حکمت عملی میں نمایاں تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ تاہم معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کے واقعات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے جنرل پیٹریاس پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں افغان مشن کے لئے مناسب شخص قرار دیا۔

ein Jahr Obama Flash-Galerie
افغانستان میں جون کے مہینے میں سو سے زائد غیر ملکی فوجی مارے گئے ہیںتصویر: AP

امریکی سینیٹ نے حال ہی میں متفقہ طور پر جنرل پیٹریاس کو افغان جنگ کی کمان سونپنے کی منظوری دی ہے۔ ان سے افغانستان میں بھی عراق جنگ کا نقشہ بدلنے جیسی ہی کارکردگی کی امید کی جا رہی ہے۔

پیٹریاس بین الاقوامی فوج کے ایک لاکھ چالیس ہزار سپاہیوں کی مدد سے طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف حتمی نوعیت کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ وہ چند ہی دنوں میں افغان دارالحکومت کابل پہنچ کر باضابطہ طور پر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

جنرل پیٹریاس کہہ چکے ہیں کہ ابھی ’چند برس‘ اور درکار ہوں گے کہ افغان سکیورٹی فورسز سلامتی کی مکمل ذمہ داریاں خود سنبھالنے کے قابل ہوسکیں۔ یہی بات نیٹو اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلاء کی ایک شرط بھی ہے۔

George W. Bush mit General David Patraeus
جنرل پیٹریاس سے عراق جنگ کا نقشہ بدلنے جیسی ہی کارکردگی کی امید کی جا رہی ہےتصویر: AP

افغانستان متعینہ امریکی افواج کو یہ شکایت ہے کہ انہیں دیہی علاقوں میں ایسی مقامی قیادت ڈھونڈنے میں دشواریوں کا سامنا ہے، جس کے ساتھ مل کر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی جا سکیں۔ جنوبی صوبے قندھار میں متعین امریکی کیپٹن کیون کروپسکی کے بقول اسی وجہ سے طالبان کو مسلح کارروائیاں ترک کرنے پر آمادہ کرنے کی نئی پالیسی پر عملدرآمد بھی دشوار ہے۔

دریں اثنا طالبان کے زیر اثر افغانستان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں فوجی کارروائیوں میں نمایاں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ جمعرات کو ہلمند صوبے میں نیٹو نے ’بڑی تعداد‘ میں طالبان کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ جنگی طیاروں کی مدد سے کی گئی اس کارروائی میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی تعداد تیس کے قریب بتائی جا رہی ہے۔ چار گھنٹے جاری رہنے والی اس جھڑپ میں متعدد عسکریت پسندوں کی گرفتاری کی بھی اطلاعات ہیں۔ گزشتہ ہفتے شمال مشرقی صوبے کنڑ میں اسی نوعیت کی کارروائی میں لگ بھگ ڈیڑھ سو مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

Selbstmordanschlag in Kabul Afghanistan Flash-Galerie
جنرل پیٹریاس کہہ چکے ہیں کہ ابھی ’چند برس‘ اور درکار ہوں گے کہ افغان سکیورٹی فورسز سلامتی کی مکمل ذمہ داریاں خود سنبھالنے کے قابل ہوسکیںتصویر: AP

افغانستان میں طالبان کے حملوں میں جون کے مہینے میں سو سے زائد غیر ملکی فوجی مارے گئے، جو 2001ء سے جاری اس جنگ میں اب تک کسی بھی مہینے میں غیر ملکی فوجیوں کی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ نیٹو کے مطابق اس کی وجہ یہ نہیں کہ طالبان غیر ملکی فوجی دستوں پر حاوی ہوتے جا رہے ہیں بلکہ اب دراصل ان علاقوں میں بھی باغیوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں، جہاں پہلے ایسے آپریشن نہیں کئے گئے تھے۔

نیٹو کے رکن ممالک میں اپنے فوجیوں کی ان بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر تشویش کے آثار نمایاں ہیں۔ ہالینڈ نے رواں سال اگست سے فوج واپس بلانے کا سلسلہ شروع کرنے جبکہ کینیڈا نے اگلے سال افغانستان سے اپنے 2800 فوجی واپس بلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں