1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہبیلجیم

’خالد بھائی آپ کا انتظار تھا، اب نہ رہا‘

7 مئی 2022

خالد حمید فاروقی کا ڈی ڈبلیو سے تعلق بہت پرانا تھا۔ وہ یورپ بھر میں ڈوئچے ویلے اردو کی ایک پہچان تھے۔ شعبہ اردو اس ادارے کے لیے ان کی خدمات کو کبھی نہیں بھولے گا۔ ڈی ڈبلیو شعبہ اردو کے سربراہ عدنان اسحاق کی خصوصی تحریر

https://p.dw.com/p/4AxnL
خالد حمید فاروقیتصویر: privat

 خالد حمید فاروقی صرف ایک باہمت، نڈر، بے باک اور غیر معمولی صحافی ہی نہیں تھے بلکہ ساتھ ہی وہ انتہائی شفیق اور ہمدرد انسان بھی تھے۔ ان کا ڈی ڈبلیو اردو سے تعلق تقریباﹰ ڈیڑھ دہائی پرانا تھا۔ اس دوران انہوں نے متعدد ایسی رپورٹس اور  ویڈیوز کیں جو شاید ان کے علاوہ کوئی اور نہ کر پاتا۔ اس کی وجہ صرف ایک ہی تھی اور وہ تھی کہ وہ بغیر لالچ یا فائدے کے واقعی صرف صحافت کرتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسے بہت کم ہی صحافی دیکھے ہیں، جنہوں نے اپنے قلم سے صرف اس شعبے کی خدمت ہی کی ہو اور خالد بھائی ان میں سے ایک تھے۔ صحافت ان کے خون میں رچی بسی تھی۔

خالد بھائی کی نفیس شخصیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یورپ ہو، پاکستان ہو یا امریکہ ہر جگہ ان کے چاہنے والے اس اندوہناک خبر پر صدمے کا شکار ہیں۔ اس کا ثبوت فیس بک ہے کہ جہاں دنیا بھر کے صحافی ان کے اس دنیا سے چلے جانے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ جو لوگ خالد حمید فاروقی کو جانتے ہیں انہیں اندازہ ہے کہ انہوں نے کبھی اپنے نظریات پر کوئی سودے بازی نہیں کی۔ وہ ہمیشہ اپنے اصولوں پر قائم رہے۔ ان میں اخلاص کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔

DW Adnan Ishaq
عدنان اسحاق (سربراہ شعبہ اردو)تصویر: DW

اپنی مصر وفیات کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے وہ اس انداز سے ڈی ڈبلیو کے ساتھ کام نہ کر سکے تھے، جس طرح  وہ کیا کرتے تھے۔ کچھ وقفہ سا آ گیا تھا۔ تاہم گزشتہ ڈیڑھ برس سے وہ ایک مرتبہ پھر متحرک ہو گئے تھے۔ اس دوران ان سے ای میل اور ٹیلیفون پر مستقل رابطہ رہتا۔ آخری مرتبہ جب انہوں نے یوکرین اور پولینڈ کی سرحد سے  فون کیا اور کہا کہ وہ ڈی ڈبلیو  اردو کے لیے ایک ویڈیو کرنا چاہتے ہیں تو میری ان سے کافی تفصیل سے بات ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے کہا، ''کسی دن ملاقات کرتے ہیں، میرے پاس کچھ تجاویز ہیں، جو ڈی ڈبلیو اردو کے لیے بہت موزوں ہو سکتی  ہیں۔‘‘ اس موقع پر بھی ان کی گفتکو کا محور صرف صحافت ہی تھی۔

ڈی ڈبلیو ہر سال گلوبل میڈیا فورم نامی ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرواتا ہے اور ہر سال خالد بھائی اس میں شرکت کرتے تھے۔ اس سال بھی ان کا بون آنے کا ارادہ تھا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ خالد بھائی کے جانے سے ڈی ڈبلیو اردو کے لیے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے کوئی بھی پورا نہیں کر سکے گا۔ یہ بات میں بہت یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ خالد بھائی کے بغیر اب برسلز بہت ویران محسوس ہو گا۔

خالد بھائی اب دوبارہ کسی نوجوان صحافی کی رہنمائی کرنے کے لیے بذات خود تو موجود نہیں لیکن اب ان سے کچھ سیکھنے والوں یا ان کے ساتھ وقت گزارنے والوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بے باک اور غیر جانبدارانہ صحافت کے ان کے مشن کو آگے بڑھائیں۔

خالد بھائی کے جانے سے شعبہ صحافت اور انسانیت کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں

اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں