1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس نے شام میں اپنے کلیدی اہداف حاصل کر لیے، امریکی افسران

شامل شمس28 دسمبر 2015

امریکی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے تین ماہ کے دوران کم لاگت کے ساتھ شام میں ایسے جنگی اہداف حاصل کر لیے ہیں، کہ وہ کئی برس تک اس شورش زدہ ملک میں ماسکو کی عسکری مہم جاری رکھ سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HUYa
تصویر: Reuters/Ministry of Defence of the Russian Federation

شام میں روسی فوجی کارروائی تین ماہ سے جاری ہے۔ روسی حکومت کے مطابق اس مہم کا مقصد شام میں جہادی تنظیموں، بالخصوص داعش کو کمزور کرنا ہے۔ تاہم مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ روس اس فوجی مہم کے ذریعے اپنے حلیف شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے، اور اس کی فضائی بم باری کا ہدف شام کے وہ باغی ہیں جو اسد حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

تاہم امریکی اہل کاروں نے اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ روس جو عسکری اہداف شام میں حاصل کرنا چاہتا تھا، وہ ان کے حصول میں کامیاب ہوگیا ہے۔

ایک سینیئر امریکی حکومتی اہل کار کا روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’یہ کہنا درست ہوگا کہ اسد حکومت روسی فوجی امداد کے بعد پہلے سے طاقت ور ہو چکی ہے۔‘‘ اس اہل کار نے یہ بات نام مخفی رکھنے کی شرط پر کہی۔ اس کے علاوہ جن پانچ حکومتی اہل کاروں سے روئٹرز نے بات کی، ان کا موقف بھی یہی تھا۔ ان امریکی اہل کاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ روس کو اس مہم کے لیے کوئی بڑا خرچہ نہیں اٹھانا پڑا۔

یہ تجزیہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکی حکومت اور صدر باراک اوباما عوامی سطح پر کہہ چکے ہیں کہ شام میں روسی مہم ناکامی کا شکار ہو رہی ہے۔ امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر روس اس مہم کو زیادہ عرصے جاری رکھے گا، تو اس کو شدید نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔

بہت سے تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ تیس ستمبر سے جاری مہم کے دوران روس کو بہت کم جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ داخلی سطح پر اقتصادی مسائل کے باوجود روس بڑی آسانی کے ساتھ اس کارروائی پر اٹھنے والے اخراجات برداشت کر رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق اس کی لاگت ایک سے دو بلین ڈالر سالانہ ہے، اور ماسکو اس کا خرچہ اپنے سالانہ دفاعی بجٹ سے پورا کر رہا ہے، جو کہ 54 بلین ڈالر کے برابر ہے۔

روس کے ساتھ اس مہم میں ایران بھی بالواسطہ طور پر شریک ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق صدر اسد کے مخالفین کم زور پڑ چکے ہیں اور روس اور ایران کے حامی باغی بہت سے علاقوں کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید