1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رچرڈ ہالبروک کا دورہِ افغانستان

13 فروری 2009

پاکستان کے دورے کے بعد افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک جمعرات کو افغانستان پہنچے۔ دوسری جانب بدھ کے روز کابل میں حملوں میں پاکستان کے ملوّث ہونے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/Gt6l
کیا رچرڈ ہالبروک بوسنیا کی طرح افغانستان میں امن قائم کر پائیں گے؟تصویر: picture-alliance/ dpa
Anschlagsserie in Kabul
منگل کے روز ہونے والے کابل حملوں میں پاکستان کے ملوّث ہونے کی تحقیقات کی جا رہی ہیںتصویر: AP

امریکی صدر باراک اوباما افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی پالیسی کو ترک کرکے ایک نئی پالیسی کی تشکیل میں مصروف ہیں۔ اس پالیسی کو عملی جامع پہنانے کے لیے امریکی صدر اوباما نے بوسنیا امن کے معمار رچرڈ ہالبروک کا انتخاب کیا ہے جو تین روز پاکستان میں گزارنے کے بعد جمعرات کو سخت ترین سیکیورٹی میں افغان دارلحکومت کابل پہنچے۔

ان کے دورہِ افغانستان سے قبل طالبان عسکریت پسندوں نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا کہ افغانستان ہالبروک کے لیے شاید بوسنیا سے زیادہ مشکل امتحان ثابت ہوگا۔ منگل کے روز افغانستان کی سرکاری عمارتوں پر تین مختلف خودکش حملوں اور فائرنگ کے نتیجے میں کم از کم چھبیس افراد ہلاک اور تیس زخمی ہوئے تھے۔ طالبان کی جانب سے کیے گئے یہ حملے شاید ہالبروک کے لیے استقبالیہ پیغام تھے۔

Politische Karte Afghanistans - englisch
امریکی صدر اوباما پندرہ سے تیس ہزار مزید امریکی افواج افغانستان روانہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں


دوسری جانب ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ افغان حکّام نے کابل میں کیے جانے والے حملوں میں پاکستان کے ملوّث ہونے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔

دریں اثناء امریکی صدر باراک اوباما ہالبروک کے زریعے سفارت کاری کے ساتھ ساتھ افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی طاقت میں اضافے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ امریکہ کے سینیئر فوجی کمانڈروں کے مطابق پندرہ سے تیس ہزار اضافی امریکی افواج جلد افغانستان روانہ کی جاسکتی ہیں۔

رچرڈ ہالبروک نے پاکستان میں تین روز گزارنے کے باوجود کوئی بیان دینے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ خطّے میں سننے اور سیکھنے کے لیے آئے ہیں۔ ہالبروک بھارت کا دورہ بھی کریں گے جس کے بعد وہ امریکی وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن اور صدر اوباما کو دورے کی رپورٹ پیش کریں گے۔