’’زبردستی سور کا گوشت کھلانا اللہ کے لیے تحفہ تھا‘‘
18 مئی 2015جرمن شہر ہینوور کا دفتر استغاثہ ملکی پولیس کے ایک افسر پرعائد ان الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے، جن کے مطابق اس پولیس اہلکار نے گزشتہ برس مراکش سے تعلق رکھنے ایک اور ایک افغان پناہ گزین کے ساتھ انتہائی تذلیل آمیز رویہ اختیار کیا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ جرمن نشریاتی ادارے این ڈی آر کے مطابق پولیس افسر نے ان دونوں پناہ گزینوں کو مارا پیٹا اور ان کا گلہ دبانے تک کی کوشش کی۔ مزید یہ اس افسر نے ایک پناہ گزین پر زمین پر پڑا ہوا سور کا گوشت تک کھانے پر مجبور کیا، جو پہلے ہی سڑ چکا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس پولیس افسر پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ اس نے شیخی مارنے کے چکر میں تشدد کے دوران اتاری گئی تصاویر واٹس ایپ کے ذریعے اپنے احباب اور ساتھ کام کرنے والوں کو بھی بھیجیں تھیں۔ اے ایف کے مطابق اس افسر نے اپنے واٹس ایپ پیغام میں لکھا تھا’’ اُس کا سور کی طرح چیخنا چلانا بہت دلچسپ تھا اور یہ اللہ کے لیے ایک تحفہ تھا‘‘۔
جرمن وزارت داخلہ نے اِن الزامات کے بعد کی جانے والی تحقیقات میں بھرپور تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ وزارت داخلہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ پناہ گزینوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے کے مبینہ واقعات انتہائی افسوس ناک ہیں۔ ترجمان کے بقول وزارت اور وفاقی پولیس کا محکمہ مل کر اس معاملے کو سلجھانا چاہتا ہے اور وہ بھی جلد از جلد اور اس مقصد کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایا جائے گا۔ دفتر استغاثہ کے مطابق اس سلسلے میں عینی شاہدین سے پوچھ گچھ کی جائے گی اور معلوم کیا جائے گا کہ آیا مزید افسران اس طرح کے واقعات میں ملوث تو نہیں تھے۔
یں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے پرو آزیول نے ان مبینہ واقعات کی شدید مذمت کی ہے۔ پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے اس جرمن ادارے نے کہا کہ یہ امتیازی سلوک اور غیر انسانی عمل کا انتہائی درجہ ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کے بارے میں جاننے والے دیگر پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جانا چاہیے۔