1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح ہلاک ہو گئے

افسر اعوان خبر رساں ادارے
4 دسمبر 2017

یمن میں سرگرم ایران نواز حوثی باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح آج صبح ان کے گھر پر ہونے والے حملے میں مارے گئے ہیں۔ صالح کی جماعت نے تاہم اسے غلط خبر قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2oj8J
علی عبداللہ صالحتصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais

خانہ جنگی کے شکار عرب ملک یمن میں سرگرم ایران نواز حوثی شیعہ باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ سابق ملکی صدر علی عبداللہ صالح مارے گئے ہیں اور جلد ہی ان کی لاش کی تصویر جاری کر دی جائے گی۔

حوثیوں کے سرکاری ٹیلی وژن المصیرہ کی طرف سے ایک رپورٹ میں بتایا گیا، ’’وزارت داخلہ نے اعلان کیا ہے کہ غدار ملیشیا کا بحران ختم ہو گیا ہے اور اس ملیشیا کے سربراہ کو اس کے کئی مجرم ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا گیا ہے۔‘‘

تاہم صالح کی جماعت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ ابھی زندہ ہیں اور صنعاء میں لڑائی میں مصروف ہیں۔ حوثی باغیوں نے آج پیر کی صبح ہی صنعاء میں صالح کی رہائش گاہ کو تباہ کر دیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ اس واقعے میں صالح کے کئی اہم ساتھی بھی مارے گئے ہیں۔

سعودی ملکیتی العریبیہ ٹیلی وژن نے بھی علی عبداللہ صالح کی ہلاکت کی تصدیق ہونے کی خبر دی ہے۔ دبئی میں قائم اس نیوز چینل کے مطابق علی عبداللہ صالح کی جماعت سے تعلق رکھنے والے ذرائع نے کہا  ہے کہ صالح ایران نواز حوثی باغیوں کے ساتھ یمنی دارالحکومت صنعاء میں ہونے والی لڑائی میں مارے گئے ہیں۔ العریبیہ کی طرف سے تاہم اس بارے میں مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔

یمن کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے ایک سینیئر اہلکار نے بھی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے صالح کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ اس اہلکار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو ایک ویڈیو بھی بھیجی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ مسلح افراد ایک شخص کی لاش کو لے جا رہے ہیں اور اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے ہیں۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس اہلکار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ یہ علی عبداللہ صالح کی لاش ہے۔ اس ویڈیو فوٹیج کی فوری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

Jemen Sanaa Kämpfe
حوثی باغیوں نے آج پیر کی صبح ہی صنعاء میں صالح کی رہائش گاہ کو تباہ کر دیا تھاتصویر: Reuters/M. al-Sayaghi

علی عبداللہ صالح نے یمن میں قریب تین دہائیوں تک حکومت کی۔ تاہم 2011ء میں عرب اسپرنگ کہلانے والی تحریک کے نتیجے میں انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔