1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سربرنیتسا: نسل کشی کی قرارداد روس نے ویٹو کر دی

عابد حسین8 جولائی 2015

اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل میں سربرنیتسا کی جنگ کے دوران نسل کشی کی مذمتی قرارداد روس نے ویٹو کر دی ہے۔ اِس جنگ کے دوران اقوام متحدہ کی پناہ میں آئے ہوئے آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1FvG8
Pictureteaser 20 Jahre Srebrenica
تصویر: picture-alliance/dpa

سکیورٹی کونسل میں سربرنیتسا قتل عام کی مذمتی قرارداد بدھ کے روز پیش کی گئی۔ قرارداد پر ووٹنگ سے قبل چین اور روس سے مختلف ملکوں نے اپیلیں بھی کی تھیں کہ وہ اِسے ویٹو کرنے سے گریز کریں۔ ووٹنگ میں قرارداد کے حق میں دس ووٹ پڑے اور ایک مخالفت میں جبکہ چار اراکین غیر حاضر تھے۔ روس نے قرارداد کو ویٹو کر دیا۔ دو مختلف بین الاقوامی عدالتیں اِس قتلِ عام کو نسل کشی قرار دے چکی ہیں۔ نسل کشی کے الزام کی روس، سربیا اور بوسنیائی سرب مخالفت کرتے ہیں۔ سربیا اور بوسنیائی سرب، روس کے حلیف تصور کیے جاتے ہیں۔

سن 1995 کی جنگ کے دوران سربرنیتسا کے مقام پر ہونے والے قتل عام کی بیسویں برسی سوگوار ماحول میں منائی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے تعین کردہ محفوظ مقام پر آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور لڑکوں کا منظم انداز میں قتل کیا گیا تھا۔ آج بدھ کے روز اقوام متحدہ کے بااختیار ادارے سکیورٹی کونسل میں پیش کی جانے والی قرارداد میں اِس نسل کشی کی مذمت کو اہم خیال کیا گیا تھا۔ اِس کی ووٹنگ میں جن ممبران نے حصہ لینے سے گریز کیا، اُن میں چین، انگولا، نائجیریا اور وینزویلا شامل ہیں۔

Srebrenica-Gedenkstätte
سن 1995 میں قتل کر دیے جانے آٹھ ہزار مسلمان مردوں اور لڑکوں کے ناموں کی یادگارتصویر: DW/S. Huseinovic

قرارداد پر ووٹنگ ایک دِن کے لیے مؤخر کر دی گئی تھی کیونکہ امریکا اور برطانیہ اِس کوشش میں تھے کہ کسی طرح روس اور چین کو قائل کیا جا سکے کہ وہ اِس کی منظوری میں حائل نہ ہوں۔ روس بدستور سربرنیتسا قتلِ عام کو نسل کشی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اقوام متحدہ میں روس کے مستقل نمائندے وتالی چُرکِن کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی تیار کردہ قرارداد تعمیری پہلو سے محروم تھی اور اِس کے سیاسی محرکات تھے۔ روس نے نسل کشی کی جگہ انٹرنیشنل کمیونٹی میں ایسے سنگین جرائم پر ’تشویش‘ کو شامل کرنے کا متمنی تھا۔ سربیا کے صدر ٹومیسلاو نِکولچ (Tomislav Nikolic) نے قرارداد کو روس کی جانب سے ویٹو کرنے کو اپنے ملک کے لیے ایک بڑا اور یادگار دن قرار دیا ہے۔

دوسری جانب سربیا کے وزیراعظم الیگزینڈر ووچِچ نے کہا ہے کہ ان کی حکومت نے متفقہ طور پر انہیں گیارہ جولائی کو سربرنیتسا قتل عام کی یادگاری تقریبات میں شرکت کے لیے درخواست کی ہے۔ سن 1995ء میں ہونے والے اس قتل عام کی یادگاری تقریبات مشرقی بوسنیا میں منعقد ہو رہی ہیں۔ سربیا کے وزیراعظم کی ان یادگاری تقریبات میں شرکت کو دونوں ممالک کے درمیان مفاہمتی عمل کے حوالے سے تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔