1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
12 مئی 2024

تاریخ میں معاشرے کو جرائم سے پاک کرنے کے لیے سزاؤں اور اصلاحات کا طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ لیکن انسانی فطرت میں مُفادات کی خاطر جرائم کرنے کا جذبہ ہے۔ اس لیے یہ دونوں طریقے معاشرے کو پاک و صاف نہیں کر سکے۔

https://p.dw.com/p/4ffon
Mubarak Ali
تصویر: privat

تہذیبوں میں جب طبقاتی فرق آیا۔ طاقتور اور کمزور کے درمیان برابری کا جذبہ نہیں رہ سکا۔ حکمراں طبقے جن کے پاس جائیدادیں اور مال و دولت تھی۔ اُس کے تحفظ کے لیے کبھی طاقت کو استعمال کیا۔ کبھی قانون کا سہارا لیا۔ اِس پر غور نہیں کیا گیا کہ لوگ جرائم کیوں کرتے ہیں اور کیوں آپس میں جھگڑا کرنے کے بعد ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔ جب کھانے کو نہ ہو تو چوری اور ڈاکہ زنی کرتے ہیں۔ اِن جرائم کو روکنے کے لیے سخت سَزاؤں اور اَذیّتیں دینے کا سلسلہ شروع ہوا تاکہ عام لوگوں کو ڈر اور خوف کی حالت میں رکھا جائے اور اشرافیہ کی مراعات محفوظ رہیں۔

سَزاؤں میں اَمیر اور غریب کے درمیان بھی فرق کیا جاتا تھا۔ اُمراء کو پھانسی کی سَزائیں نہیں دی جاتی تھی۔ بلکہ اِن کی گردن اُڑا دی جاتی تھی۔ عام قید خانوں کے مقابلے میں اُمراء کو ٹاور آف لندن میں '' قید‘‘ کیا جاتا تھا۔ جسے ولیم فاتح نے 1066 میں تعمیر کرایا تھا۔ جن مشہور شخصیتوں کو یہاں پھانسی دی گئی۔ اُن میں Thomas Moor تھا جس نے ''یوٹو پیا‘‘ نامی کتاب لکھی ہے۔ اُس کا قصور یہ تھا کہ اُس نے ہینری ہشتم کے لیے پوپ سے اُس کی طلاق کو جائز قرار دینے کو رَد کر دیا تھا۔ ٹاوَر ہی میں ہشتم کی بیوی این بولین (Anne Boleyn) تھی اُس کے سَر کاٹنے کے لیے فرانس سے جلاد کو بُلایا گیا تھا۔ جو ایک ہی وار میں سَر قَلم کر دیتا تھا۔ ملکۂ الزَبتھ (اَوّل) نے Merry of Scott کا بھی سَر اِسی جگہ کٹوایا تھا۔ دَستُور یہ تھا کہ جلاد سَر کو موجود لوگوں کو دِکھا کر اعلان کرتا تھا کہ یہ ایک غدّار کا سَر ہے۔ اب Tower of London اور اُس کا میوزیم سیّاحوں کی دِلچسپی کا مرکز ہے۔

جو مجرم ریاست کی نظر میں زیادہ خطرناک ہوتے تھے۔ اُن کو پبلِک کے سامنے ایک میز پر لِٹا کر چھُریوں اور کہلاڑیوں سے اُس کے بدن کے ٹُکڑے ٹُکڑے کیے جاتے تھے۔ اَذیّت کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ مجرم کو لِٹا کر اُس کے سینے پر بھاری بوجھ رکھا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے اُس کے لیے سانس لینا مشکل ہو جاتا تھا اور اسی حالت میں وہ مَر جاتا تھا۔ اَذیّت اور موت کی یہ سزائیں پبلِک میں دی جاتیں تھیں۔ مَقصد یہ تھا کہ لوگ عبرت حاصل کریں اور جرائم سے دُور رہیں۔ اَذیّت اور موت کے نئے نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔ اُن میں سے ایک یہ تھا کہ مجرم کو بازار کے چوراہے پر اُبلتے پانی میں ڈال کر مار دیا جاتا تھا۔

چرچ کے ادارے اِنکلوزیشن کی اپنی سزائیں تھیں۔ یہ اُن افراد کو دیں جاتیں تھیں جو چرچ کی تعلیمات سے مُنحرف ہو گئے تھے۔ پہلے ان کو اذیّتیں دی جاتیں تا کہ یہ اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیں۔ لیکن اعتراف کے باوجود انہیں زندہ جلایا جاتا تھا۔ اِس کی دلیل یہ دی جاتی تھی کہ زندہ جلا کر اس دنیا ہی میں اُن کے گناہوں کی سَزا مِل گئی ہے اور آخرت میں وہ نجات کے مُستحق ہیں۔

عہدِ وسطیٰ میں چرچ کا اِس قدر تسلّط تھا کہ حکمراں بھی اس سے ڈرتے تھے۔ اِس کی مثال انگلستان کے بادشاہ ہینری دوئم کی ہے۔ اس نے اپنے اُمراء سے کہہ کر Thomas Becket کو قتل کرایا تھا جو اَرک بشپ آف کَنٹر بری تھا۔ جب پوپ نے ہینری دوئم کو معافی کے لیے کہا اور عیسائیت سے نکالنے کی دھمکی دی تو اُس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ وہ Thomas Becket کے مَزار تک پیدل گیا اور پھر اپنی ننگی پِیٹھ پر کوڑے کھائے۔ تب پوپ کی جانِب سے اُسے معافی مِلی۔

ریاست اور چرچ دونوں دانشوروں کے خلاف تھے۔ جو سیاست اور مذہب پر تنقید کرتے تھے۔ اس صورت میں اُن کی کتابوں کو پبلِک میں جلا دیا جاتا تھا اور اُن کو قید کے علاوہ پبلِک میں بھی سَزائیں دی جاتیں تھیں۔ سَزا کا ایک طریقہ (Pillory) کہلاتا تھا۔ یہ لکڑی کا ایک فریم ہوتا تھا۔ اس میں مجرم کو کھڑا کر کے اس کے دونوں ہاتھ خالی جگہ ڈال کر بند کر دیے جاتے۔ اُس کے چہرے پر لکڑی کا خول چڑھا دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے وہ کوئی حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ اس حالت میں کسی کو بھی دیکھ کر لوگ اُس پر گند پھینکتے تھے۔ اُسے گالیاں دیتے تھے۔ مجرم یہ سب کچھ برداشت کرتا تھا۔ لیکن لوگوں کا رویّہ اُس وقت بدل جاتا تھا جب وہ کسی دانشور اور مُفکِّر کو (Pillory) میں پھنسا ہوا دیکھتے تھے۔ تو وہ اُسے ہار پہناتے تھے۔ اُس کی ہمت کی تعریف کرتے تھے اور اُس سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔

عہدِ وسطیٰ کی اِن سَزاؤں کے نتیجے میں جِس پر ریاست اپنے مخالفوں کے جسموں پر قابو پا کر سَزائیں دیتی تھی۔ اُن کے جسموں کو زخمی کیا جاتا تھا۔ ہاتھ پاؤں کاٹ کر اُنہیں معذور کر دیتے تھے۔ اُن کی آنکھیں نکلوا دیتے تھے۔ ناک اور کان کٹوا دیتے ہیں۔ اُنہیں معاشرے میں ذِلّت کے درجے پر پہنچا دیا جاتا تھا۔ دلیل یہ دی جاتی تھی کہ معذور اور سَزا یافتہ افراد معاشرے کا حصّہ نہ بنیں اور وہ معاشرے سے علیحدہ رہیں۔

وقت کے ساتھ تہذیبی رویّوں میں تبدیلی آئی۔ اب تک پبلِک کے سامنے جو سَزائیں دی جاتیں تھیں وہ بَند ہوئیں اور اُنہیں جیل کے اندر پبلِک کی نگاہوں سے دُور کر دیا گیا۔ اسی طرح سے دوسری جسمانی سَزائیں بھی بَند ہوئیں۔ جس میں جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور انسانی اعضاء کو کاٹنا تھا۔ اب ترقی یافتہ مُلکوں میں سَزاؤں کے بارے میں رجحانات میں تبدیلی تو آئی ہے۔ مگر یورپی ممالِک نے موجودہ دَور میں جو ویتنام اور عراق میں مظالِم کیے ہیں۔ اُن سے عہدِ وسطیٰ کی سزاؤں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

آج بھی اَمرانہ حکومتیں اپنے مخالفوں کو نہ صرف قید میں رکھتیں ہیں بلکہ اِنہیں بھیانک اَذیّتیں دے کر خاموش کر دیتیں ہیں۔

(مذید تفصیل کے لیے پڑھیں William Andrewsکی کتاب Medieval Punishments)

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍