1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سلمان تاثیر کے قاتل کے حق میں سینکڑوں افراد کا مظاہرہ

3 فروری 2015

پاکستانی صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کے حق میں قریب تین سو افراد نے اسلام آباد میں مظاہرہ کیا ہے۔ یہ مظاہرہ قادری کی جانب سے اپنی سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت کے موقع پر کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1EVA8
تصویر: AP

سابق پاکستانی پولیس اہلکار ممتاز قادری نے اپنی سزائے موت کے خلا ف یہ اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کر رکھی ہے۔ قادری نے سلمان تاثیر کو 2011 میں توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے اسلام آباد ہی کی ایک مارکیٹ میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا۔

ممتاز قادری کو اس جرم پر عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ قادری خود بھی سلمان تاثیر کو قتل کرنے کا جرم قبول کر چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ سلمان تاثیر توہین مذہب کے قانون میں تبدیلی کے حامی تھے۔ پاکستان میں توہین مذہب کی سزا موت ہے۔

اپیل کی سماعت کے موقع پر عدالت کے باہر قریب 300 افراد نے قادری کے حق میں مظاہرہ کیا
اپیل کی سماعت کے موقع پر عدالت کے باہر قریب 300 افراد نے قادری کے حق میں مظاہرہ کیاتصویر: DW

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی قادری کی اپیل کی سماعت دو ججوں پر مشتمل بینچ نے کی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اپیل کی سماعت کے موقع پر عدالت کے باہر قریب 300 افراد نے قادری کے حق میں مظاہرہ کیا۔ یہ افراد قادری کی رہائی کے لیے نعرے لگا رہے تھے۔

اے ایف پی کے مطابق مظاہرین نے ایک پاکستانی مذہبی جماعت سنی تحریک کے لوگو والی شرٹس پہن رکھی تھیں اور یہ افراد ’’جیل کا تالا جلد ٹوٹے گا اور قادری کو رہا کیا جائے گا‘‘ اور ’’شرم کرو، قادری کو رہا کرو‘‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔

قادری کے بھائی ملک محمد سفیر نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے قادری کی رہائی کا مطالبہ کیا: ’’میرے بھائی نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ وہ جیل میں خوش اور مطمئن ہے اور ہمیشہ خدا کی عبادت کرتا ہے۔ سلمان تاثیر اس لیے قتل ہوا کیونکہ اس نے مذہب کی توہین کی تھی۔‘‘

قادری کے وکلائے دفاع نے امید ظاہر کی ہے کہ سزائے موت کے خلاف اس کی اپیل پر فیصلہ چند ہفتوں میں ہی آ جائے گا۔ پاکستان میں 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان دہشت گردوں کے حملے کے بعد ملکی حکومت نے سزائے موت پر عائد پابندی ختم کر دی تھی۔ اس حملے میں 150 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے زیادہ تر اسکول کے بچے تھے۔