1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوچتا ہوں کہ مسلمانوں کی طرح روزے رکھا کروں، سرفراز مائیکل

افسر اعوان12 جولائی 2015

پاکستان میں رمضان کے مہینے میں ایسے لوگ مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں جو روزہ نہیں رکھتے۔ ان میں غیر مسلموں کے علاوہ بیمار افراد، حاملہ خواتین، بوڑھے اور ایسے دیگر افراد بھی شامل ہیں جنہیں مذہباً روزے سے استثنیٰ حاصل ہے۔

https://p.dw.com/p/1FxRN
تصویر: AFP/Getty Images

رمضان کے ایک تپتے دن سرفراز مائیکل پاکستانی شہر راولپنڈی میں اپنی سبزی کی ریڑھی کو آہستگی کے ساتھ دھکیل رہا تھا۔ مسیحی مذہب کا پیروکار مائیکل پیاس سے نڈھال اور پسینے میں شرابور ہونے کے باوجود رمضان کے باعث پانی نہیں پی سکتا تھا کیونکہ اُسے اِت مہینے میں دی جانے والے سزا کا احساس تھا۔ پاکستان میں سابق آمر حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور میں کی گئی قانون سازی کے مطابق ایسا کرنے کی صورت میں پانچ سو روپے جرمانہ یا تین ماہ تک قید یا پھر دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔

اِس حالت میں نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے مائیکل سرفراز نے کہا،’’میں گھر پہنچنے تک انتظار کروں گا یہ پھر کسی ساتھی غیر مسلم کے گھر جا کر پانی پیوں گا۔‘‘

قانون کے مطابق اس بات سے قطع نظر کہ کسی فرد پر روزہ فرض ہے یا نہیں وہ روزے کے دوران عوامی مقامات پر کھلے عام کھا، پی یا تمباکو نوشی نہیں کر سکتا۔ ہائیکورٹ کے وکیل شہباز راجپوت کے مطابق حقیقت میں حکام ان لوگوں کے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں کرتے جنہیں روزہ رکھنے سے استثنیٰ حاصل ہے مثلاﹰ غیر مسلم، عمر رسیدہ افراد یا پھر ایسے مسلمان جو بیمار یا سفر میں ہوں: ’’ان قوانین کے باعث ملک بھر میں تمام ریستوران روزے کے اوقات میں تقریباً بند ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنہیں ناشتے یا کھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

تمام ریستوران روزے کے اوقات میں بند ہوتے ہیں
تمام ریستوران روزے کے اوقات میں بند ہوتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

تجزیہ کاروں کے مطابق اس قانون کو ہر کسی پر لاگو کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور صحت کے حوالے سے شدید پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ رمضان کے شروع میں گرمی کی شدید لہر کے باعث سندھ میں 1250 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حکومتی بیان کے مطابق زیادہ تر ہلاکتیں اس شدید موسم میں روزہ رکھنے کے باعث ہوئیں۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداللہ کے مطابق روزہ انسان اور خدا کے درمیان نجی معاملہ ہے اور اسی لیے اس معاملے میں حکومت کو نہیں آنا چاہیے اور حکومت کی طرف سے روزہ رکھنے کے لیے سخت قوانین کا نفاذ نہیں کرنا چاہیے: ’’یہ صرف انسانی حقوق کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ صحت سے متعلق مسائل کے حوالے سے بھی ایک بڑا ایشو ہے۔‘‘

پولیس کی جانب سے کریک ڈاؤن اور شدت پسند مسلمانوں کے خوف کے تناظر میں مائیکل سرفراز کہتا ہے، ’’بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ میں بھی رمضان کے دوران مسلمانوں کی طرح روزے رکھنا شروع کر دوں۔‘‘