1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سویڈن میں پانی کے موضوع پر بین الاقوامی اجتماع کا آغاز

6 ستمبر 2010

’انٹرنیشنل واٹر ویک‘ کے نام سے یہ اجتماع پانچ ستمبر اتوار سے سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہولم میں منعقد ہو رہا ہے۔ اپنی نوعیت کا یہ بیس واں اجتماع گیارہ سمتبر تک جاری رہے گا۔

https://p.dw.com/p/P5DW
پانی بہت ہے، بس حسنِ انتظام چاہئےتصویر: AP

’واٹر ویک‘ کی صورت میں پانی کے موضوع پر کوئی بین الاقوامی اجتماع منعقد کرنے کا سلسلہ 1991ء میں سٹاک ہولم میں قائم واٹر انسٹیٹیوٹ SIWI نے شروع کیا تھا اور تب سے یہ ادارہ ہر سال اِس اجتماع کا اہتمام کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس سال کے واٹر ویک میں دُنیا کے ایک سو تیس ملکوں سے تعلق رکھنے والے ڈھائی ہزار مندوبین شرکت کر رہے ہیں، جو اِس مرتبہ خاص طور پر کرہء ارض پر پانی کی بڑھتی ہوئی آلودگی اور پانی کے مسلسل گرتے ہوئے معیار پر تبادلہء خیال کریں گے۔

اس اجتماع کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انسانی آبادی کے حوالے سے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور اقتصادی ترقی کے نتیجے میں زمین سے پانی زیادہ نکالا بھی جا رہا ہے اور استعمال بھی زیادہ کیا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ شہری آبادی میں اضافہ، زراعت، صنعت اور موسمیاتی تبدیلیاں آبی وسائل کی مقدار کو بھی متاثر کر رہے ہیں اور معیار کو بھی۔ سٹاک ہولم کے ادارے SIWI کے مطابق دُنیا بھر میں دو ملین ٹن انسانی فضلہ سیدھا دریاؤں، جھیلوں یا سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ترقی پذیر ملکوں میں ستر فیصد تک صنعتی فضلے کو کسی بھی کیمیاوی عمل سے گزارے بغیر سیدھا پانی میں پھینک دیا جاتا ہے، جس سے آبی وسائل شدید طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔

Symbolbild Wasser
بڑھتی آبادی، شہروں کے پھیلاؤ، صنعتی ترقی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کی مقدار اور معیار میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہےتصویر: dpa

امسالہ واٹر ویک کے موقع پر بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے یونیسیف نے اِس جانب توجہ دلائی ہے کہ ہر سال دُنیا بھر میں 1.5 ملین بچے ایسی بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، جو آلودہ پانی اور حفظانِ صحت کی ناکافی سہولتوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ دُنیا بھر میں 884 ملین انسانوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، جن میں پانچ سال سے کم عمر کے 125 ملین بچے بھی شامل ہیں۔ مزید یہ کہ 2.6 ارب انسان ایسے ہیں، جنہیں ٹائلٹ یا حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق نکاسیء آب کی سہولتیں میسر نہیں ہے۔

یونیسیف نے اِس ضمن میں پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کی جانب خصوصی توجہ دلائی ہے۔ کولون میں یونیسیف کی جرمن شاخ کے ناظم الامور کرسٹیان شنائیڈر نے کہا کہ اِن سیلاب زدہ علاقوں میں وباؤں کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ سیلابی پانی کے تند و تیز ریلوں کے گزر جانے کے بعد اب ٹھہرا ہوا آلودہ پانی بچوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اگست کے اواخر سے پاکستان میں دست میں مبتلا افراد کی تعداد بڑھ کر پانچ لاکھ تک جا پہنچی ہے جبکہ کم خوراکی کے شکار بچوں کے لئے دست کی بیماری مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ شنائیڈر نے بتایا کہ مہلک بیماریوں کے خطرے کے تدارُک کے لئے ضرورت اِس بات کی ہے کہ تین ملین بچوں کو فوری طور پر صاف ستھرا پانی فراہم کیا جائے۔

Entlang des Rheins haben sich viele Industriebetriebe angesiedelt
جرمن دریائے رائن کے کنارے فیکٹریاں اور کارخانے۔ دُنیا بھر میں کارخانے اور فیکٹریاں دریاؤں کے قریب ہیں اور زیادہ تر اُن کا استعمال شُدہ پانی دریاؤں میں بہا دیا جاتا ہےتصویر: Reategui

پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں جانوروں اور انسانوں کے فضلے کے ساتھ ساتھ جانوروں کی لاشیں بھی پانی کو آلودہ کر رہی ہیں اور پانی میں موجود جراثیم ہی دست کی بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ بن رہے ہیں۔ یونیسیف نے ایک بار پھر اپیل جاری کی کہ پاکستان کے سیلاب زدگان کے لئے عطیات کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔

اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے ادارے FAO کے اندازوں کے مطابق اگلے پندرہ برسوں کے دوران 1.8 ارب انسان ایسے ملکوں یا علاقوں میں رہ رہے ہوں گے، جو پانی کی شدید قلت کا شکار ہوں گے اور یہ کہ دو تہائی عالمی آبادی کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پانی کی قلت کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے، جسے حل نہ کیا جا سکے۔ ماہرین کے مطابق درحقیقت کرہء ارض پر انسانوں کی ضرورت سے زیادہ پانی موجود ہے، ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ اِس کی نگرانی، دیکھ بھال اور تقسیم کے انتظامات کو بہتر بنایا جائے۔ یہی وہ نکتہ ہے، جس پر خاص طور پر سٹاک ہولم کی اِس کانفرنس میں غور کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ لوگوں میں پانی کے مسائل کا شعور اجاگر کیا جائے اور اُنہیں آگاہ کیا جائے کہ پانی کی آلودگی کہاں کہاں اور کن کن اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں