1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیلفی نہیں اب ویلفی

افسر اعوان6 جولائی 2015

بھارت میں ان دنوں ویلفی کا رجحان زور پکڑ رہا ہے۔ بالی وڈ کے اسٹار ہی نہیں، کھیلوں کے میدانوں کے ہیرو اور سیاستدان بھی اس ’بخار‘ کا شکار نظر آ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Ftaz
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Paul

ویلفی دراصل مختلف موبائل ایپلیکیشنز کے استعمال سے اپنی ویڈیو ریکارڈ کر کے اسے انٹرنیٹ پر جاری کرنا ہے۔ ان اییپلیکیشن میں ’لِپ سِنک‘ یعنی کسی ڈائیلاگ کے ساتھ اپنے ہونٹوں کی حرکت کو اس طرح موزوں کرنا کہ دیکھنے والےکو لگتا ہے کہ وہ ڈائیلاگ دراصل آپ ہی بول رہے ہیں۔

’2014ء کا سال سیلفی کا تھا جبکہ 2015ء کا سال ویلفی کا ہے‘ یہ نعرہ ہے Blurb کاجو دراصل Dubmash کی طرح کی اسمارٹ فون ایپلیکیشن ہے جس کی مدد سے لوگ مختلف گانوں ڈائیلاگز یا پہلے سے ریکارڈ شدہ آڈیو پر لپ سنِک کر سکتے ہیں اور اپنے جزبات کی ویڈیو ریکارڈ کر کے سوشل نیٹ ورکس پر شیئر کر سکتے ہیں۔

جرمنی میں تیار کی گئی ایپلیکیشن ’ڈب میش‘ نومبر 2014ء میں ریلیز کی گئی اور اس وقت سے اب تک اسے دنیا کے 192 ممالک میں 50 ملین سے زائد مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔ عالمی سطح پر پھیلتے ہوئے اس جنون نے بھارت کی فلم انڈسٹری کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بھارتی فلموں کے نامور اسٹار مختلف ڈائیلاگز کو اس ایپلیکیشن کے ذریعے ریکارڈ کر کے اپنے چاہنے والوں کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں جن میں فیس بُک اور انسٹاگرام سرفہرست ہیں۔ سلمان خان اور رنویر سنگھ کے علاوہ خواتین اداروں میں سوناکشی سنہا اور رِچا چڈا ایسی ہی چند ایک مثالیں ہیں۔ سلمان خان اور سوناکشی سنہا کے 1971ء میں ریلیز ہونے والی ایک فلم کے ڈائیلاگز پر پرفارمنس کی ویڈیو کو انسٹاگرام پر اب تک 71 ہزار لائکس مل چکے ہیں۔

سلمان خان اور سوناکشی سنہا کے 1971ء میں ریلیز ہونے والی ایک فلم کے ڈائیلاگز پر پرفارمنس کی ویڈیو کو انسٹاگرام پر اب تک 71 ہزار لائکس مل چکے ہیں
سلمان خان اور سوناکشی سنہا کے 1971ء میں ریلیز ہونے والی ایک فلم کے ڈائیلاگز پر پرفارمنس کی ویڈیو کو انسٹاگرام پر اب تک 71 ہزار لائکس مل چکے ہیںتصویر: STRDEL/AFP/Getty Images

ویلفی کے اس بڑھتے ہوئے عالمی رحجان کے پیش نظر بھارت میں ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنی مصنوعات لا رہی ہیں۔ رواں برس اپریل میں شروع کی جانے والی ایک کمپنی ’انڈیاز ویلفی‘ کے شریک بانی رام موہن سندرام کے مطابق، ’’سیلفی محض ایک تصویر ہوتی ہے جبکہ ویلفی میں آپ اپنے جذبات میں سمو سکتے ہیں جو صرف ایک تصویر میں سمونا ممکن نہیں ہے۔‘‘

بھارت میں تیار کی گئی ایک ایپلیکشن Frankly.me بھی ہے جو اینڈرائڈ اور آئی او ایس دونوں آپریٹنگ سسٹمز کے لیے دستیاب ہے۔ اس ایپلیکیشن کے ذریعے آپ کھلاڑیوں، سیاستدانوں اور دیگر معروف شخصیات کے لیے اپنے سوالات ریکارڈ کر کے انٹرنیٹ پر ڈال سکتے ہیں جس کا جواب مذکورہ شخصیات ویڈیو سلیفی اور ویلفی کے ذریعے دیتے ہیں۔