1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں پرتشدد مظاہرے، کم از کم پینتیس ہلاک

9 اپریل 2011

عرب ملک شام میں حکومت کے خلاف تازہ مظاہروں میں حکومت کی سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کا سہارا لیا، گزشتہ روز لگ بھگ تین درجن افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔

https://p.dw.com/p/10qKj
تصویر: picture alliance/abaca

قاہرہ میں قائم شامی انسانی حقوق کی تنظیم نیشنل آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس کے مطابق جمعہ کے روز شام کے مختلف شہروں میں کل 35 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر عمارقُرابی کے مطابق درعا میں ہلاک ہونے والے انیس افراد کے نام بھی ان کے پاس موجود ہیں۔ قرابی کے مطابق دو حمس اور تین حراستہ میں سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔

شام کے جنوبی شہر درعا سمیت چند اور شہروں میں بھی عوامی ریلیوں میں شرکاء ایمرجنسی کے خاتمے اور سیاسی اصلاحات کے لیےنعرے لگا رہے تھے۔

درعا تازہ عوامی تحریک کا مرکزی مقام تصور کیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز جمعہ کو بھی عوامی ریلی کو سرکاری سکیورٹی اہلکاروں کی فائرنگ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مقامی لوگوں نےدرعا شہر میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 22 بتائی ہے۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کے مطابق تقریباً 120 افراد زخمی حالت میں ہسپتالوں تک پہنچائے گئے ہیں۔ درعا میں ہی مظاہرین نے بشار الاسد کے بھائی باسل کے مجسمے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اردن کی سرحد کے قریب واقع اس شہر میں مارچ سے شروع ہونی والی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 90 تک پہنچ گئی ہے۔

Unruhen in Syrien NO FLASH
شام میں جاری عوامی تحریک کو اب چوتھا ہفتہ شروع ہو گیا ہےتصویر: dapd

دوسری جانب سرکاری ٹیلی وژن نے رپورٹ کیا ہے کہ مسلح افراد نے انیس پولیس اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے علاوہ پچھتر دیگر افراد کو زخمی بھی کیا۔ حکومتی ٹیلی وژن کے مطابق ہلاک ہونے والے سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکار تھے۔ مختلف ذرائع کے مطابق رات گئےکئی لاشیں سڑکوں پر پڑی ہوئی تھیں کیونکہ سارے علاقے کو سکیورٹی فورسز نے گھیر رکھا تھا۔

درعا میں ایک بار پھر عمری مسجد مظاہرین کا مرکز تھی۔ فائرنگ کے بعد مسجد کے لاؤڈ اسپیکروں سے طبی معاونت کے لیے لوگوں سے اپیل بھی کی گئی۔ درعا میں ہزاروں افراد آزادی، آزادی کے نعرے لگا رہ تھے، جب انہیں سکیورٹی فورسز کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی طرح مشرق میں کرد آبادی کے شہر قمیشی میں بھی کرد نوجوانوں نے اصلاحات کے حق میں ایک پرزور ریلی کا انتظام کیا تھا۔ کرد آبادی والے دیگر چار شہروں میں بھی ریلیاں نکالی گئی تھیں۔ تقریباً شام کے تمام اہم شہروں میں عوامی بےچینی کی اطلاعات ہیں۔ ان شہروں میں لوگ درعا کے زخمیوں اور مرحومین کے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کر رہے ہیں۔

بحیرہ روم کے ساحلی شہر الاذاقیہ سے لیکر عراقی سرحدی شہر البُو کمال تک حکومت مخالف مظاہروں کو رپورٹ کیا جا رہا ہے۔ بشار الاسد کے آبائی شہر حمس میں بھی حکومت مخالف مظاہرے کے دوران گن فائر کا استعمال کیا گیا۔ سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق سینکڑوں زخمیوں میں سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ دارالحکومت دمشق کے نواح میں بھی عوامی جلوس نکالے گئے ۔ دمشق میں صدر کے حامیوں نے مخالفین کی ریلی پر حملہ بھی کیا۔

ایک اور شامی شہر حاما میں بھی بہت بڑی ریلی کو منتشر کرنے کے لیے حکومتی فورسز نے سخت کارروائی کا سہارا لیا۔ اس دوران حکومت نے دھوئیں والے بموں کا بھی استعمال کیا۔ اسی شہر میں1982ء میں بشارالاسد کے والد نے اخوان المسلمین کی ایک تحریک کو فوجی کارروائی کے ذریعے کچل دیا تھا۔ شام میں جاری عوامی تحریک کو اب چوتھا ہفتہ شروع ہو گیا ہے۔ کل ہلاکتوں کی تعداد پونے دو سو کے قریب بتائی جاتی ہے۔

رپورٹ: عابد حسین⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں