1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام پر پابندیاں مزید سخت

Adnan Ishaq14 مئی 2012

یورپی یونین نے شام پر عائد پابندیوں کو مزید سخت کر دیا ہے۔ بشارلاسد حکومت میں شامل مزید تین شخصیات اور دو کمپنیوں کو بیلک لسٹ کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/14v7x
تصویر: AP

یورپی حکومتوں کو شام میں کوفی عنان کے امن معاہدے کے سوا امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ برسلز میں یورپی وزرائے خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ کوشش بھی ناکام ہو گئی تو شام میں بد ترین خانہ جنگی شروع ہونے کا خطرہ ہے۔ اس دوران شامی صدر بشارالاسد کے خلاف پہلے سے عائد پابندیوں کو مزید سخت بنانے کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس طرح اب بشارلاسد حکومت میں شامل مزید تین شخصیات اور دو کمپنیوں کو بیلک لسٹ کر دیا گیا ہے۔ یہ افراد اب یورپی یونین میں داخل نہیں ہو سکیں گے اور ان کے اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس سے قبل 126شامی باشندوں پر اسی طرح کی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ اب ایسی شامی کمپنیوں کی تعداد 43 ہو گئی ہے، جن پر یورپی یونین کے ساتھ تجارت کرنے پر پابندی ہے۔

یورپی یونین میں شام میں تشدد کے نہ رکنے والے سلسلے کی وجہ سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ یورپی وزرائے خارجہ نے اپنے اجلاس میں اقوام متحدہ کے امن منصوبے کی مکمل تائید بھی کی۔ سویڈن کے وزیر خارجہ کارل بلڈ نے کہا کہ بشارالاسد اور اُن کے مخالفین کے مابین مذاکرات بہت ضروری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوشش کرنی چاہیے کہ اقوام متحدہ کے تین سو مبصرین جلد از جلد شام میں اپنا کام شروع کر دیں۔ بلڈ کے بقول دیکھا گیا ہے کہ مبصرین جہاں کہیں بھی موجود ہوتے ہیں اس علاقے میں تشدد میں کمی آجاتی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے بھی خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر شام کی صورتحال کو قابو میں نہ کیا گیا تو تشدد کا سلسلہ پڑوسی ملک لبنان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ یورپی یونین میں خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن نے بتایا کہ مبصرین کے مشن کے لیے 25 بکتر بند گاڑیوں کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

Zum Thema Anschlag auf UN Beobachter in Daraa Syrien
مبصرین جہاں کہیں بھی موجود ہوتے ہیں اس علاقے میں تشدد میں کمی آجاتی ہے، کارل بلڈتصویر: Reuters

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے دمشق حکومت اور مخالفین سے اپیل کی ہے کہ وہ امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ نہ بننیں۔ ایک اندازے کے مطابق متاثرہ علاقوں میں ایک ملین سے بھی زائد افراد امداد کے منتظر ہیں۔

دوسری جانب سیریئن آبزرویٹری کے مطابق راستن میں سرکاری دستوں پر کیے جانے والے ایک حملے میں 23 اہلکار ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ شامی افواج نے گزرے ویک اینڈ پر راستن اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں کارروائی شروع کی تھی۔ روسی وزارت خارجہ نے شامی فوج پر ہونے والے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کی کارروائی قرار دیا ہے۔ شام کے لیے خصوصی ایلچی کوفی عنان کی جانب سے پیش کیے گئے امن معاہدے پر عمل درآمد کی اپیلیں ابھی تک کارآمد ثابت نہیں ہو سکی ہیں۔ ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ شامی فریقین پر امن معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد کر چکی ہے۔

ai/km( KNA,Reuters)