1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صنعاء میں تین خود کش حملے، کم از کم 137 ہلاک

عابد حسین20 مارچ 2015

جزیرہ نما عرب کے شورش زدہ ملک یمن کے شہر صنعاء کی دو مساجد میں کیے گئے تین خود کُش بم حملوں میں ہلاک شدگان کی تعداد 130 سے زائد ہو چکی ہے جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔ اِن حملوں کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے قبول کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Euag
تصویر: Reuters/Mohamed al-Sayaghi

یمنی دارالحکومت کی جن دو مساجد پر خود کش بمباروں نے حملے کیے ہیں، اُن میں شیعہ حوثی ملیشیا کے زیادہ تر اراکین جمعے کی نماز ادا کرنے پہنچے ہوئے تھے۔ اِن حملوں میں کم از کم ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب 137 تک پہنچ چکی ہے۔ طبی حلقوں نے اِن ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔ بم دھماکوں میں تین سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ طبی ذرائع کے مطابق کئی زخمیوں کی حالت نازک ہے اور ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ حوثی ملیشیا کے ٹیلی وژن چینل المسیرا نے بتایا ہے کہ صنعا کے ہسپتالوں کی جانب سے شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ خون کے عطیات کے لیے ہسپتالوں کا رُخ کریں۔

پہلا خود کش حملہ جنوبی صنعا میں واقع بدر مسجد میں ہوا۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے بعد جب نمازیوں نے باہر کی جانب بھاگنا شروع کیا تو مسجد کے مرکزی دروازے پر کھڑے خود کش بمبار نے بھی اپنی بارودی بیلٹ کو اڑا دیا۔ تیسرا خود کش حملہ شمالی صنعا میں واقع مسجد الحشوش میں ہوا۔ دونوں مقامات پر خود کش حملوں کے بعد فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ حملوں کے بعد زخمیوں اور ہلاک ہونے والے انسانوں کے خون سے دونوں مساجد لِتھڑ گئی تھیں۔

Selbstmordattentate auf Moscheen im Jemen
صنعا کے ہسپتالوں کی جانب سے خون کے عطیے کی اپیل کی گئی ہےتصویر: Reuters/Mohamed al-Sayaghi

ان حملوں کی ذمہ داری عراق اور شام میں سرگرم جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔ قبل ازیں صنعا میں یمن کی اعلیٰ ترین سکیورٹی ادارے نے اِن حملوں کی مبینہ منصوبہ بندی اور اُس پر عمل درآمد کرنے کا الزام جزیرہ نما عرب میں سرگرم القاعدہ (AQAP) پر دھرا تھا۔ اِس دوران جہادی تنظیم القاعدہ کے ایک لیڈر کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اِن حملوں میں القاعدہ ملوث نہیں ہے۔ رواں برس جنوری میں صنعا کی پولیس اکیڈیمی پر کار بم حملے کے بعد مساجد پر کیے گئے یہ خود کش حملے شدید ترین ہیں۔ پولیس اکیڈیمی پر کیے گئے حملے میں چالیس افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔

گزشتہ برس شیعہ حوثی ملیشیا نے یمنی دارالحکومت پر چڑھائی کر دی تھی۔ اِس دوران صدر عبدالرب منصور ہادی کی حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ انہوں نے اپنے وزیراعظم خالد بحاح کی تقلید میں منصبِ صدارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ استعفیٰ یمنی پارلیمنٹ کی جانب سے منظور نہیں کیا گیا۔ اب منصور ہادی بحیرہ احمر کے بندرگاہی شہر عدن میں متوازی حکومت قائم کیے ہوئے ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ وہ وہاں سے ملکی فوج کو منظم کر کے شیعہ حوثی ملیشیا کو صنعا سے باہر نکال کر اپنی حکومت کا اختیار قائم کریں۔