1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صومالیہ میں افراتفری اور انتشار برقرار

رپورٹ: عابد حسین، ادارت: امجد علی12 مئی 2009

افریقی براعظم کے ملک صومالیہ میں ایک مذہبی لیڈر شیخ شریف شیخ احمد کے صدر منتخب ہو جانے کے بعد بھی انتشار میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/Hoac
موغادیشو پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لئے مسلمان انتہاپسندوں اور حکومت کی حامی ملیشیا کے درمیان سخت ٹھنی ہوئی ہےتصویر: AP

سب سے بڑے شہر موغادیشو میں مسلسل افراتفری کے باعث عام لوگ نقل مکانی کے باعث بے گھری اور بے سرو سامانی کا شکار ہو رہے ہیں۔

موغادیشو میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کے خیال میں متحارب گروپوں کے درمیان وقفے وقفے سے ہونے والی جھڑپوں اور مختلف علاقوں میں بار بار فائرنگ کی آوازوں سے خوف و ہراس کی فضا ہمہ وقت قائم ہے۔

UN-Gebertreffen in Brüssel - Somalia
صومالی صدر شیخ شریف شیخ یورپی یونین کے کمشنر برائے انسانی حقوق اور امداد لوئی مشیل کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئےتصویر: AP

معتدل اسلامی نظریات کے حامل شیخ شریف کی حامی عسکریت پسند تنظیم اسلامی کورٹس یونین کو دو انتہاپسند گروپوں، الشباب اورحزب الاسلامی کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ اِن دونوں گروپوں کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اسلامی کورٹس یونین کو پسپا کرتے ہوئے کئی مقامات پر شہر کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ اِس سلسلے میں حزب الاسلامی کے شیخ حسن مہدی نے میڈیا کے لئے تصدیقی بیان بھی جاری کیا۔

گزشتہ دو تین دنوں میں ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی کم از کم تعداد ایک سو بیس تک پہنچ چکی ہے۔ انسانی حقوق کے ایک اور گروپ المان کے مطابق ہلاکتیں ایک سو بیس سے تجاوز کر گئی ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے جاری جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی کُل تعداد تین سو سے زیادہ ہے۔ اِن جھڑپوں میں سب سے خونی واقعہ اِسی ویک اینڈ کا ہے جب ایک مارٹر گولہ نماز کے دوران ایک مسجد پر گرا اور وہاں پندرہ نمازی جاں بحق ہوگئے۔ اتوار کی رات سے اب تک وقفے وقفے سے جاری زوردار فائرنگ سے سارا شہر لرز اٹھتا ہے۔

امن و سلامتی کی خراب صورت حال کے باعث ہزاروں افراد بے گھر ہو کر محفوظ مقامات کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مستقبل قریب میں کوئی بڑی جنگ شہر پر مسلط ہو سکتی ہے کیونکہ فریقین شہر میں بھاری ہتھیار بشمول توپوں کے جمع کر رہے ہیں۔

موغادیشو پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لئے مسلمان انتہاپسندوں اور حکومت کی حامی ملیشیا کے درمیان سخت ٹھنی ہوئی ہے۔ سردست مسلمان انتہاپسند جنگی گروپوں کو غیر ملکی جنگجوؤں کی حمایت بھی حاصل ہے۔

Somalia Krieg Regierungstruppen in Burhakaba
صومالیہ سن انیس سو اکیاسی سے انتشار کا شکار ہےتصویر: AP


انتہاپسند گروپوں کے خیال میں موجودہ صدر شیخ شریف شیخ احمد مغرب نواز ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ شیخ شریف سابقہ عبوری حکومت کے صدر عبداللہی یوسف احمد کی عبوری حکومت کے خلاف برسر پیکار گروپ کے لیڈر تھے مگر بعد میں اُس گروپ میں شریک اُن کے قریبی دوست شیخ حسن ظاہر آویز نے دوسرے اراکین سے ملی بھگت کر کے اُن کو معتدل نظریات رکھنے کی وجہ سے نکال باہر کیا تھا ۔

سن دو ہزار چھ میں اسلامی کورٹس یونین کی قیادت کرتے ہوئے موجودہ صدر اور اُس وقت کے کمانڈر نے موغادیشو پر تقریباً مکمل کنٹرول حاصل کر کیا تھا۔ وہ اِس سال اکتیس جنوری سے صومالیہ کے صدر ہیں۔

اِس مناسبت سے کچھ امریکی تھنک ٹینکس کے خدشات پہلے ہی سامنے آ چکے ہیں کہ القائدہ کے جنگ جُو اب عراق اور افغانستان سے نکل کر صومالیہ کو اپنا بڑا ٹھکانہ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ شیخ شریف شیخ احمد کی حکومت صومالی قزاقوں کے خلاف بھی بھرپور مہم چلائے ہوئے ہے۔ اِس سلسلے میں مساجد میں خصوصی حکومتی اعلانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

صومالیہ سن انیس سو اکیانوے سے انتشار کا شکار ہے جب اُس وقت کے ڈکٹیٹر حکمران محمد سیاد باری کو عوامی مخالفت کی بِنا پرحکومت چھوڑنا پڑی تھی۔ صومالیہ کے اندرونی حالات کے تناظر میں اُسے مسلسل تیسرے سال بھی عالمی سطح پر انتہائی خطرناک ملک قرار دیا جا رہا ہے۔