1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طویل بھوک ہڑتال کرنے والا فلسطینی اسرائیلی قید سے رہا

امجد علی12 جولائی 2015

اسرائیل نے حال ہی میں اپنی چھپّن روزہ بھوک ہڑتال ختم کرنے والے فلسطینی قیدی خضر عدنان کو رہا کر دیا ہے۔ دبلے پتلے اور زرد رُو عدنان کو ایک اسرائیلی ایمبولینس میں لایا گیا اور فلسطینی میڈیکل سروس کے حوالے کر دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1FxOb
Westjordanland Khader Adnan freigelassen
بارہ جولائی 2015ء کو خضر عدنان کا رہائی کے بعد مغربی کنارے کے شہر جینین کے قریب ان کے گاؤں میں شاندار استقبال کیا جا رہا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/A. Badarneh

بتایا گیا ہے کہ خضر عدنان کی یہ رہائی اتوار بارہ جولائی کو علی الصبح عمل میں آئی ہے۔ خضر عدنان ’اسلامی جہاد‘ نامی تنظیم کا ایک سینیئر رکن ہے اور اسرائیل نے اُسے ایک سال سے زیادہ عرصے سے اپنی ’انتظامی تحویل‘ میں لے رکھا تھا۔ ’انتظامی تحویل‘ سے مراد یہ ہے کہ اسرائیلی عدلیہ مشتبہ افراد کو فردِ جرم عائد کیے یا کوئی عدالتی فیصلہ سنائے بغیر چھ مہینے تک حراست میں رکھ سکتی ہے۔ بعد ازاں اس مدت میں مرضی کے مطابق جتنی مرتبہ ضرورت ہو، توسیع کی جا سکتی ہے۔

خضر عدنان نے تین سال پہلے بھی ایک مرتبہ پورے چھیاسٹھ روز تک بھوک ہڑتال کی تھی اور یوں اُن فلسطینیوں کی حالتِ زار کی طرف توجہ دلائی تھی، جنہیں بغیر کسی مقدمے یا یغیر کسی فردِ جرم عائد کیے قید میں رکھا جاتا ہے۔ اپنی تازہ چھپن روزہ بھوک ہڑتال عدنان نے دو ہفتے پہلے اُس وقت ختم کی تھی، جب اُسے رہا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

ابتدائی پروگرام کے مطابق خضر عدنان کو ہفتے کے روز ہی رہا کیا جانا تھا تاہم اُس کے حامیوں کی جانب سے فتح کے جشن سے بچنے کے لیے اُس اتوار بارہ جولائی کو رہا کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ’اسلامی جہاد‘ تنظیم اسرائیل کے خلاف کئی خونریز حملوں کا باعث بنتی رہی ہے۔ اسرائیل کا موقف یہ ہے کہ ’انتظامی تحویل‘ عسکریت پسند فلسطینیوں کے خلاف ایک اہم ہتھیار ثابت ہو رہی ہے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز نے راملہ سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ خضر عدنان کی رہائی ان خدشات کی روشنی میں عمل میں آئی ہے کہ اُس کی ممکنہ موت کے نتیجے میں غزہ کی پہلے سے کمزور فائر بندی خطرے میں پڑ سکتی تھی یا پھر تشدد کی کسی نئی لہر کا آغاز ہو سکتا تھا۔

سینتیس سالہ خضر عدنان نے اس سال چار مئی سے کھانا پینا بند کر دیا تھا، جس کے بعد اُس کی حالت نازک ہو جانے پر اُسے ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔

Khader Adnan
خضر عدنان مغربی کنارے میں ’اسلامی جہاد‘ کی نمایاں شخصیات میں سے ایک ہےتصویر: DW

اسرائیل نے خضر عدنان کو گزشتہ سال جولائی میں دَس ویں مرتبہ گرفتار کیا تھا۔ چھ بچوں کا باپ عدنان مغربی کنارے کے شہر جینین میں رہائش پذیر ہے۔ 2012ء میں بھی ایک طویل بھوک ہڑتال کرنے والے عدنان کو بالآخر رہا کر دیا گیا تھا۔

اسرائیل نے بھوک ہڑتالوں کو روکنے کے لیے زبردستی خوراک دینے کی قانون سازی متعارف کروائی تھی لیکن اس میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں مثلاً اسرائیل کے ڈاکٹروں کی قومی یونین اس قانون کی مذمت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ایسا کرنا اخلاقی اصولوں کے منافی ہے۔

خضر عدنان مغربی کنارے میں ’اسلامی جہاد‘ کی نمایاں شخصیات میں سے ایک ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جس پر اسرائیل 1967ء سے قابض چلا آ رہا ہے اور جسے فلسطینی ایک آزاد ریاست کے طور پر دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ حماس کی طرح ’اسلامی جہاد‘ بھی فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین امن سمجھوتوں کے خلاف ہے اور اسرائیل کی تباہی کی وکالت کرتا ہے۔