1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں تاریخی پیکج کی منظوری

11 دسمبر 2011

عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں ایک ایسے پیکج پر اتفاق رائے ہو گیا ہے، جس کے تحت آلودگی کا باعث بننے والے بڑے ملکوں کو پہلی بار زمینی درجہء حرارت میں اضافے کی رفتار کو کم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہونے پر مجبور کیا جا سکے گا۔

https://p.dw.com/p/13Qcf

جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی اس بارہ روزہ کانفرنس کو جمعہ 9 دسمبر کو ہی اختتام پذیر ہو جانا تھا لیکن پھر عین آخری لمحات میں مذاکرات طُول پکڑتے گئے اور آج اتوار کو کہیں چودہویں روز شرکاء کسی سمجھوتے پر متفق ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ سمجھوتہ کئی برسوں کی اُن ناکام کوششوں کے بعد سامنے آیا ہے، جن کا مقصد چین اور بھارت جیسی ابھرتی ہوئی صنعتی طاقتوں کو ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی مقدار محدود کرنے کے باقاعدہ قانونی ضوابط کا پابند بنانا تھا۔

اب تک محض صنعتی ممالک ہی 1997ء میں جاپانی شہر کیوٹو میں طے پانے والی کیوٹو دستاویز کے تحت اپنے اپنے ہاں فضا کے لیے ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو محدود بنانے کے قانونی طور پر پابند ہیں۔ تاہم اِس کیوٹو دستاویز کی مدت آئندہ برس ختم ہو رہی ہے۔ آج اتوار کو طے پانے والے ڈربن پیکج میں کیوٹو دستاویز میں طے کردہ اہداف کی مدت میں مزید پانچ سال تک کی توسیع کر دی گئی ہے۔

ڈربن پیکج کے نام سے طے پانے والے اِس روڈ میپ میں ایسی کمیٹیاں بھی قائم کر دی گئی ہیں، جن کے ذمے سالانہ اربوں ڈالر کی وہ رقوم جمع کرنے، کنٹرول کرنے اور تقسیم کرنے کا کام ہو گا، جو غریب ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے فراہم کی جائیں گی۔

ماحول دوست حلقے ڈربن پیکج پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں
ماحول دوست حلقے ڈربن پیکج پر عدم اطمینان کا اظہار کر رہے ہیںتصویر: Jeppesen/DW

کانفرنس کے دوران آخر وقت تک یہ بات یقینی نظر نہیں آ رہی تھی کہ شرکاء واقعی کسی ٹھوس لائحہ عمل پر متفق ہو جائیں گے۔ یورپی یونین کی بھرپور تائید و حمایت سے بہت سے ترقی پذیر ملک ایک ایسے سمجھوتے کے لیے کوشش کر رہے تھے، جس میں دُنیا کے تمام ملکوں کو یکساں طور پر باقاعدہ قانونی طریقے سے اپنے اپنے ہاں ضرر رساں کاربن گیسوں کی مقدار کو محدود کرنے کا پابند کیا گیا ہو۔ چین اور بھارت جیسے ممالک کسی قانونی پابندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور محض رضاکارانہ اہداف کی وکالت کر رہے تھے۔

ماحول کے امور کی بھارتی وزیر جائنتی ناتاراجن نے یورپی یونین کو ہدفِ تنقید بنایا اور سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئےکہا کہ اُس کا مؤقف بیس سال پرانے اُس اصول کے خلاف جاتا ہے، جس کے تحت فضائی آلودگی کی ذمہ داری ترقی پذیر یا ترقی کی دہلیز پر کھڑے ہوئے ملکوں پر کم اور اُن صنعتی ملکوں پر زیادہ عائد ہوتی ہے، جو گزرے دو سو برسوں میں فضا کو آلودہ کرتے ہوئے زمینی درجہء حرارت میں اضافے کا اصل باعث بنے ہیں۔

جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ مائیٹے نکوآنا ماشابانے نے، جو اِس کانفرنس کی صدارت بھی کر رہی تھیں، بالآخر شرکاء پر چار مختلف پیکج منظور کرنے کے لیے زور دیا تھا، جو باقاعدہ قانونی حیثیت بھی رکھتے ہوں۔ اُنہوں نے کہا:’’ہم یہاں پلان اے لے کر آئے تھے اور ہم اس کانفرنس کو پلان اے کے ساتھ ہی اختتام تک پہنچا رہے ہیں اور وہ پلان یا منصوبہ یہ ہے کہ ہم اس دھرتی کو اپنے بچوں اور بعد میں آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے بچانا چاہتے ہیں۔ آج ہم نے تاریخ رقم کر دی ہے۔‘‘

جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ مائیٹے نکوآنا ماشابانے
جنوبی افریقہ کی وزیر خارجہ مائیٹے نکوآنا ماشابانےتصویر: dapd

برازیل نے، جو کہ دُنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے، ڈربن پیکج کا خیر مقدم کیا ہے۔ بھارتی وزیر ناتاراجن نے کہا کہ شدید بحث مباحثے کے بعد بھارت نے بھی بالآخر دوسرے ملکوں کی پیروی کرتے ہوئے لچکدار مؤقف اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

تحفظ ماحول کے علمبرداروں اور ماحول دوست تنظیموں کے ساتھ ساتھ اُن چھوٹی جزیرہ ریاستوں نے بھی، جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں اور سمندروں میں پانی کی سطح بلند ہو جانے کے نتیجے میں ڈوبنے کا خطرہ ہے، ڈربن پیکج پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس کا لب و لہجہ اور بھی زیادہ ٹھوس اور مستحکم ہونا چاہییے تھا۔

رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں