1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی یوم آبادی: پاکستان میں شرح آبادی’بڑا خطرہ‘

عنبرین فاطمہ، کراچی11 جولائی 2014

پاکستان کی آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ آبادی سے متعلق ماہرین کے مطابق پاکستان میں آبادی کے بڑھنے کی شرح اس حد تک پہنچ گئی ہے جسے ’ہائی رسک‘ یا بڑا خطرہ قرار دیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CbIf
تصویر: picture-alliance/dpa

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم آبادی منایا جا رہا ہے۔ اس برس اس دن کا موضوع ہے ’نوجوان لوگوں پر سرمایہ کاری‘۔

دنیا کی آبادی سال 2011ء میں سات ارب سے تجاوز کر گئی تھی۔ دنیا کی اتنی بڑی آبادی جہاں عالمی سطح پر ایک طرف چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے تو دوسری جانب پائیدار مستقبل، بہتر سہولیات کی فراہمی، طبی سہولیات تک رسائی اور نوجوانوں کو با اختیار کرنے کے حوالے سے مواقع بھی لیے ہوئے ہے۔

پاکستان میں آبادی کی شرح ’ہائی رسک‘ کی حد میں

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ 18کروڑ کی کُل آبادی کا 40 فیصد 10 سے 29 برس کے درمیان نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان میں بہبود آبادی کے لیے کام کرنے والے ایک بین الاقوامی ادارے پاپولیشن کونسل اور اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق اگر پاکستان کی آبادی موجود شرح سے بڑھتی رہی تو 2050ء تک اس ملک کی آبادی 342 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔

پاکستانی ماہرین کے مطابق ایک ایسے دور میں جب دنیا سائنسی ترقی، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ہونے والی ترقی سے فائدہ اٹھا رہی ہے، پاکستانی عوام آج بھی مانع حمل طریقہ کار کے استعمال سے متعلق بنیادی تصور کو سمجھ نہیں پا رہی ہے۔

کراچی کے ایک معروف گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید کے مطابق پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کی ایک بڑی وجہ حکومت کی اس طرف ناکافی کوششیں ہیں: ’’ہماری حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں منصوبہ بندی کے جو محکمے ہیں ان میں کسی قسم کا ایسا کام نہیں ہوتا ہے جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکل سکے۔ سندھ یا پنجاب کا ہی دیکھ لیں دوائیں نہیں ملتی ہیں لوگوں کو، کنڈوم لوگوں کودینے کے لیے نہیں ہیں، آئی یو سی ڈی لگانے کا مناسب انتظام نہیں ہے اور ٹیوبل لائگیشن کی سہولتیں مہیا نہیں ہیں۔‘‘

پاکستان میں بہبود آبادی کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے پاپولیشن کونسل کی کنٹری ڈائریکٹر زیبا ستار کے مطابق پاکستان کے حوالے سے ایک مثبت بات یہ ہے کہ لوگوں میں اب خواہش پیدا ہو رہی ہے کہ وہ کم بچے پیدا کریں یا ان میں وقفہ بڑھائیں: ’’روں برس جنوری میں پاکستان کا ایک سروے آیا ہے ڈیموگریفک ہیلتھ سروے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اب لوگوں میں تین سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی خواہش نہیں ہے۔ بلکہ بڑی شدت سے عورتیں اور مرد چاہتے ہیں کہ جب تین چار بچے ہو جاتے ہیں تو مزید بچے پیدا نہ ہوں۔ تو ایسے میں لوگوں کو اگر بہت اچھی سروسز فراہم کی جائیں بہت جلد پاکستان میں آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے۔‘‘

زیبا ستار کے مطابق ان حالا ت میں ضرورت اب اس امر کی ہے کہ خاص طور پر حکومت کی طرف سے بچوں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے اچھی سروسز فراہم کی جائیں۔

آج کی نوجوان نسل کو اختیار دینے سے، ہم وہ بنیاد کھڑی کریں گے جس کا نتیجہ آنے والی نسلوں کے پائیدار مستقبل کی صورت میں نکلے گا، بان کی مون
آج کی نوجوان نسل کو اختیار دینے سے، ہم وہ بنیاد کھڑی کریں گے جس کا نتیجہ آنے والی نسلوں کے پائیدار مستقبل کی صورت میں نکلے گا، بان کی مونتصویر: Reuters

عالمی یوم آبادی منانے کا آغاز

1989ء میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی گورننگ کونسل نے تجویز دی کہ دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پیدا ہونے والے مسائل سے متعلق شعور بیدار کرنے اور ترقیاتی منصوبوں میں ان مسائل کو حل کرنے کے تناظر میں ہر سال عالمی یوم آبادی منایا جائے۔ اس کونسل کی طرف سے یہ بھی تجویز کیا گیا کہ 11 جولائی کو عالمی یوم آبادی کے طور پر منایا جانا چاہیے۔

اقوام متحدہ کے مطابق آج دنیا بھر میں 1.8 بلین نوجوان دنیا کے مستقبل کو بہتر بنانے کے عمل میں شریک ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بہت بڑی تعداد میں نوجوان غربت، عدم مساوات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث اپنے ذاتی اور اجتماعی صلاحتیوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔

عالمی یوم آزادی 2014ء کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے نوجوانوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے: ’’میں اس عالمی یوم آبادی پر میں اثر ورسوخ رکھنے والے تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ترقیاتی منصوبوں میں نوجوانوں کو ترجیح دیں۔ اور ایسے تمام فیصلوں میں نوجوان لوگوں کو شامل کریں جن سے وہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ آج کی نوجوان نسل کو اختیار دینے سے، ہم وہ بنیاد کھڑی کریں گے جس کا نتیجہ آنے والی نسلوں کے پائیدار مستقبل کی صورت میں نکلے گا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید