1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عام انتخابات اور خواجہ سراؤں کے سیاسی عزائم

بینش جاوید
20 جون 2018

پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے چند خواجہ سراؤں نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ تاہم اپنی برادری اور دیگر پسماندہ طبقوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کے والے بیشتر خواجہ سرا امیدواروں کو فتح کی امید نہیں۔

https://p.dw.com/p/2zqfz
Transgender in Pakistan
تصویر: Forum for Dignitiy Initiatives

خواجہ سرا امیدواروں کے مطابق معاشرے میں موجود تعصبات، انتخابی سیاست کے لیے درکار بھاری رقم اور انکے مسائل کے حوالے سے سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کی روایتی بے حسی اس ناامیدی کا سبب ہے۔ مگر مئی دو ہزار اٹھارہ میں خواجہ سراؤں کے حوالے سے ہونے والی قانون سازی اور حالیہ دنوں میں ان کے حق میں اٹھائی جانے والی آوازوں اور اقدامات سے ان کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

حالیہ مردم شماری کے مطابق ملک میں خواجہ سراؤں کی تعداد دس ہزار ہے۔ تاہم ان کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ تعداد درست نہیں اور درحقیقت  یہ تعداد کم از کم چار سے پانچ لاکھ کے مابین ہے۔

اسلام آباد کے حلقے این اے 54 سے، جہاں گزشتہ برس پی ٹی ائی کے رکن اسد عمر انتخابات جیتے تھے، خواجہ سرا جولی بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گی۔ جولی نے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میری کمیونٹی مرکزی دھارے میں نہیں ہے۔ میں خود عوام کے پسماندہ ترین طبقے سے تعلق رکھتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ لوڈ شیڈنگ کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔ میرے گھر میں پانی کی سہولت نہیں ہے، تو مجھے معلوم ہے کہ پانی کے بغیر سب کچھ کتنا مشکل ہوتا ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ جب ’بھیک مانگنے اور شادیوں پر ناچ گانے والے طبقے‘ سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو بہت کم افراد  اس کی حمایت میں کھڑے ہوتے ہیں۔

Transgender in Pakistan
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Adil

خواجہ سراوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’فریڈیم ڈگنٹی انیشی ایٹیو‘ کی سربراہ عظٰمی یعقوب نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ اس برادری میں بہت غربت اور پسماندگی ہے اور تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔ اب  جب کہ ان کے حق میں قانون سازی ہو چکی ہے تو ضروری ہے کہ وہ سیاست کے ذریعے اپنی کمیونٹی کے لیے آواز اٹھائیں۔‘‘

رواں برس مئی کے مہینے میں خواجہ سراؤں کے حق میں ایک قانون پاس کیا گیا۔ اس قانون کے تحت انہیں اپنی جنس طے کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔ وہ خود کو مرد، عورت یا پھر دونوں جنسوں کا ملاپ کہلانے کا حق رکھتے ہیں اور وہ تمام سرکاری دستاویزات، جیسا کہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ  لائسنس، میں اپنی جنس ظاہر کر سکتے ہیں۔

عظٰمی یعقوب نے ڈی ڈبلیو سے چند قانونی پیچیدگیوں کا بھی ذکر کیا جو اس کمیونٹی کے افراد کے لیے انتخابی عمل کا حصہ بننے میں خلل ڈال سکتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’بیشتر خواجہ سرا شناختی کارڈ میں بطور مرد رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے علاوہ الیکشن کے کاغذات نامزدگی میں مرد اور عورت کا خانہ تو ہے لیکن خواجہ سرا کا خانہ ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کی فیس بیس ہزار اور قومی اسمبلی کے لیے تیس ہزار روپے ہے جو بیشتر خواجہ سرا نہیں ادا کر سکتے۔‘‘

2012 میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں ٹرانس جینڈر کو تیسری جنس کہلائے جانے کا حق دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سن 2013 کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ خواجہ سرا امیدواروں نے انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا۔ ان انتخابات میں کراچی سے بندیا رانا، جہلم سے ریشم اور لبنیٰ لال، سرگودھا سے میڈم بھٹو اور سکھر سے صنم فقیر نے حصہ لیا۔ ان مین سے بیشتر کے کاغذات نامزدگی ہی مسترد ہو گئے اور صرف ریشم انتخابات کے مرحلے تک پہنچ پائیں، تاہم انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ سن 2013 کے انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات میں ہری پور سے صائمہ شوکت نامی خواجہ سرا نے یونین کونسلر کا الیکشن لڑا اور وہ کامیاب بھی ہوئیں۔ یوں وہ پاکستان کی پہلی ایسی خواجہ سرا بن گئیں جنہوں نے کسی بھی طرح کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

Transgender in Pakistan
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/R.S. Hussain

2016 میں جھنگ کے ضمنی انتخابات میں میڈم بھٹو نے حصہ لیا تھا۔  پی ٹی آئی، پی پی پی اور پی ایم ایل این کے امیدواروں کے مقابلے میں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑی ہوئیں، بھر پور انتخابی مہم چلائی لیکن کامیاب نہ ہوسکیں۔

اس مرتبہ سماجی کارکن اور انسانی حقوق کی کارکن،  خواجہ سرا نایاب علی این اے 142 اوکاڑہ سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’جب تک خواجہ سرا برادری سے کوئی نمائندہ اسمبلی میں نہیں ہوگا، تب تک ان کے مسائل کا حل ممکن نہیں۔"

نایاب علی کی انتخابی مہم کا نعرہ ہے ’ووٹ جمہوریت کے لیے، ووٹ انسانیت کے لیے‘۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر میں جیت گئی تو اپنی خواجہ سرا برادری کے لیے بہترین قانون سازی کراؤں گی۔ خواجہ سراؤں کی صحت، تعلیم اور ان کے روزگار کے لیے کام کروں گی۔ اس کے علاوہ معذور افراد، خواتین اور اقلیتیں بھی میرے منشور کا اہم حصہ ہیں۔‘‘

جہلم سے صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والی لبنیٰ لال بھی خاصی پر عزم ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’میں خواجہ سراؤں کی تعلیم کے لیے کام کروں گی ۔ مجھے امید ہے کہ میں جیت جاؤں گی۔ خواجہ سرا بھیک مانگتے ہیں، معاشرے میں انہیں لوگ اچھا نہیں سمجھتے حالانکہ یہ مسکین لوگ ہوتے ہیں۔ میرا کوئی خاندان نہیں ہے اس لیے مجھے کوئی لالچ نہیں ہے۔ مجھے فکر ہوگی تو اپنی کمیونٹی کی۔‘‘

’شی میل ایسوسی ایشن فار فنڈامنٹل رائٹس‘ کی بانی خواجہ سرا  ندیم کشش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں دس سال سے خواجہ سراؤں کے لیے کام کر رہی ہوں، لیکن آج بھی ہمیں معاشرے میں عزت حاصل نہیں ہے ۔ میں نے این اے 52 کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تو فوراﹰ مجھ پر  سوال اٹھنا شروع ہوگئے، ایک ٹی وی پروگرام میں یہ تک کہا گیا کہ میں نقلی خواجہ سرا ہوں، حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔‘‘

انتخابی سیاست کے لیے درکار مالی وسائل نہ ہونے کے سبب کشش نے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے،’’میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں بھرپور انتخابی مہم لڑ سکوں، اس لیے میں دست بردار ہو رہی ہوں ۔ ہمارے پاس فنڈنگ نہیں ہے۔‘‘ کشش کے مطابق خواجہ سراؤں کے لیے نشستیں مختص کی جانا چاہیں تاکہ انہیں ایسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے، جن کا انہیں اب تک سامنا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید