1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق، آخری امریکی فوجی دستہ بھی واپس روانہ

18 دسمبر 2011

آج اتوار کی صبح عراق میں تعینات امریکی فوجیوں کے آخری فوجی دستے کا انخلا بھی مکمل ہو گیا۔ جب یہ فوجی ایک قافلے کی صورت میں عراق سے کویت میں داخل ہوئے تو ان کے چہروں پر خوشی و مسرت دیدنی تھی۔

https://p.dw.com/p/13V0o
تصویر: AP

عراق میں تعینات ان امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد وہاں امریکہ کا نو سالہ فوجی مشن بھی سرکاری طور پر اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ اس فوجی مشن کے اختتام پر البتہ یہ سوال نمایاں ہے کہ کیا یہ عرب ملک مستقبل میں امریکہ کا ایک اہم اتحادی رہے گا۔

عراق میں واشنگٹن حکومت کی نو سالہ فوجی مہم کے دوران قریب ساڑھے چار ہزار امریکی فوجی ہلاک ہوئے جبکہ ایک لاکھ سے زائد عراقی اپنے جان گنوا بیٹھے۔ امریکی حکام کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس مشن پر آٹھ سو بلین امریکی ڈالر خرچ  کیے گئے۔ تاہم سکیورٹی تجزیہ نگاروں کے بقول ابھی اس بات کا جواب نہیں ملا ہے کہ عراق میں اس فوجی مشن سے واشنگٹن حکومت کو مطلوبہ اہداف حاصل ہوئے یا نہیں۔

ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق کوئی ایک سو بکتر بند گاڑیوں پر ایک قافلے کی صورت میں MRAP نامی امریکی فوجی دستہ گزشتہ رات جنوبی عراق کے صحرائی راستے سے سفر کرتا ہوا، مقامی وقت کے مطابق پونے آٹھ بجے کویت پہنچ گیا۔ جب یہ فوجی عراقی سرحد سے کویت میں داخل ہو رہے تو ڈرامائی مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ کئی عراقی باشندوں نے اس موقع پر امریکی فوجیوں کے انخلاء مکمل ہونے کو اپنے کیمروں کی آنکھ میں سمیٹا تو کئی انہیں آخری خدا حافظ کہنے کو بے قرار تھے۔

بیس مارچ 2003ء میں اس وقت کےعراقی آمر صدام حسین کے اقتدار کو الٹنے کے لیے امریکی افواج نے یہ آپریشن شروع کیا تھا۔ اس آپریشن کے دوران صدام حسین کو گرفتار کر کے تیس دسمبر 2006 کو سزائے موت دے دی گئی تھی۔ اب اس مشن کے اختتام پر امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عراقی عوام آزاد ہیں اور وہاں اب انہوں نے خود ہی جمہوریت کو فروغ دینے کے سرگرم ہونا ہے۔

تاہم بہت سے عراقی ابھی تک ایک بے یقینی کی کیفیت میں ہیں کہ اب ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ عراقی عوام کے خیال میں اس جنگ کے نتیجے میں ان کے ملک کا بنیادی انفراسٹریکچر تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اس رپورٹ میں عراقی عوام نے شکایت کی کہ ہزاروں کی تعداد میں یتیم بچے اور بیواؤں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے جبکہ ملک نسلی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔

اس تناظر میں امریکی صدر باراک اوباما نے عراقی وزیراعظم نوری المالکی سے گزشتہ ہفتے ہونے والی ملاقات میں انہیں یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ واشنگٹن حکومت بغداد کے ساتھ رہے گی اور وہاں پائیدار قیام امن اور ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں