1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر مسلم ووٹروں کی تعداد میں تیس فیصد اضافہ

20 جون 2018

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 25 جولائی کے عام انتخابات کے لیے ملک کی سات بڑی غیر مسلم مذہبی برادریوں سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کی تعداد 36 لاکھ 30 ہزار سے زائد ہے، جو گزشتہ انتخابات کی نسبت 30 فیصد زیادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/2zpzt
Bildergalerie Sternsinger Pakistan
تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

الیکشن کمیشن کی انتخابی فہرستوں کے مطابق ملک میں سب سے زیادہ غیر مسلم ووٹروں کا تعلق ہندو برادری سے ہے۔ ان کی تعداد 17لاکھ 77 ہزار سے زائد ہے۔ دوسری بڑی مذہبی اقلیت مسیحی ہے۔ مسیحی ووٹروں کی تعداد 16 لاکھ 40 ہزار سے زیادہ ہے۔ تیسری سب سے بڑی برادری احمدی شہریوں کی ہے۔ ان کی تعداد ایک لاکھ 67,501 ہے۔ ان کے علاوہ 31,500 سے زائد بہائی، 8852 سکھ، 4235 پارسی اور بدھ مت کے 1884 پیروکار بھی ووٹر لسٹوں میں شامل ہیں۔ 2018 کی انتخابی فہرستوں میں ایک بھی یہودی ووٹر لسٹ میں شامل نہیں ہے جبکہ 2013 کے انتخابات کے لیے رجسٹرڈ یہودی ووٹروں کی تعداد 809 تھی۔

انتخابی فہرستوں کے مطابق ہندو رائے دہندگان کی اکثریت سندھ میں رہتی ہے، جہاں 40 فیصد ووٹر صرف دو اضلاع عمر کوٹ اور تھرپاکر میں رہتے ہیں۔ مسیحی رائے دہندگان میں سے 10 لاکھ پنجاب میں اور دو لاکھ سے زیادہ سندھ میں رہائش پذیر ہیں۔ احمدی برادری کے رائے دہندگان پنجاب، سندھ اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ اس کے برعکس سکھ ووٹروں کی بہت بڑی تعداد خیبر پختونخوا اور فاٹا کے قبائلی علاقوں میں مقیم ہے۔ پارسی رائے دہندگان کی بڑی اکثریت سندھ میں ہے جبکہ ان کا ایک حصہ خیبر پختونخوا میں بھی آباد ہے۔

پشاور میں سکھ بچوں کے لیے قائم کردہ اسکول

پاکستان میں آئندہ الیکشن میں اقلیتوں کی بھرپور اور مساوی شرکت کے حوالے سے بزرگ صحافی اور انسانی حقوق کے معروف رہنما آئی اے رحمان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’مذہبی اقلیتوں سے متعلق جو الیکشن ایکٹ پارلیمان میں منظور ہوا، جو اس وقت نافذ بھی ہے، اس میں الیکشن کمیشن کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ووٹروں کی رجسڑیشن کے لیے خصوصی اقدامات کرے۔ لیکن یہ کام اتنا مشکل اور پھیلا ہوا ہے کہ ابھی تک یہ کہنا ممکن نہیں کہ تمام اقلیتی ووٹ رجسٹر ہو چکے ہیں۔ یہ مسئلہ تو رہے گا۔ اس مسئلے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘

اسلام آباد کے رہائشی طاہر احمد کا تعلق احمدی برادری سے ہے اور وہ ایک مقامی کالج میں پڑھاتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’ہم احمدیوں کے بطور شہری اور بطور ووٹر مسائل قانونی اور سماجی نوعیت کے ہیں، جو بہت پیچیدہ ہیں۔ مثال کے طور پرانتخابی فہرستوں میں شامل احمدی صرف مخصوص نشستوں پر ہی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔ یہ انتظامی پہلو ہے جبکہ قانونی پہلو یہ ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد ہمارے سیاسی حقوق بھی متاثر ہوئے ہیں۔‘‘

طاہر احمد نے بتایا کہ ایک احمدی امیدوار کا انتخابی حلقہ پورے ملک پر پھیلا ہو گا۔ ان حالات میں احمدیوں کے لیے مساوی انتخابی حقوق کو یقینی کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ ان کے مطابق، ’’احمدیوں کی اکثریت گزشتہ کئی دہائیوں سے الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیتی کیونکہ اس نظام کے تحت  احمدیوں کو اپنے مذہبی عقائد پر سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس انتخابی عمل میں ہماری حیثیت عملی طور پر اچھوت کی سی ہے۔‘‘

پاکستان کی ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے کپل دیو ایک صحافی، انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور ایک کامیاب بلاگر بھی ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا، ’’2018 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندو ووٹروں کی تعداد تقریبا 18 لاکھ ہے جو 2013 کی لسٹوں کے مقابلے میں تقریبا ساڑھے تین لاکھ زیادہ ہے۔ لیکن بہت سے ہندو شہری ابھی تک رجسٹرڈ ووٹر نہیں ہیں، جس کی بنیادی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ سندھ میں تھرپارکر اور عمر کوٹ ایسے خطے ہیں، جہاں ہندو برادری اکثریت میں ہے۔ تھرپارکر میں 47 فیصد کے قریب اور عمر کوٹ میں 49 فیصد ووٹر ہندو ہیں۔ وہاں تین انتخابی حلقے ایسے ہیں، جہاں ہندو ووٹروں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔‘‘

کپل دیو نے بتایا کہ تھرپارکر میں بارش نہیں ہوتی۔ وہاں کی آبادی نقل مکانی کرتی رہتی ہے۔ پھر بہت سی خواتین کے ابھی تک شناختی کارڈ بھی نہیں بنے، لہذا ان کا ووٹر لسٹوں میں اندراج بھی نہیں۔ کپل دیو کے مطابق،'' جوگی باگڑی ایسی ہندو برادری ہے، جو ہمیشہ نقل مکانی کرتی ہے۔ چھ ماہ ادھر تو اگلے چھ ماہ کہیں اور۔ ایسے اقلیتی شہری شناختی کارڈ نہ ہونے اور ووٹ کے حق سے محروم رہ جانے کی وجہ سے اپنے حقوق سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ غریب اور حقدار ہونے کے باوجود بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام وغیرہ سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘

کپل دیو کے مطابق، ’’الیکشن کمیشن کی انتخابی فہرستوں میں شامل ہندو ووٹروں کی تعداد اصل حقائق کی عکاسی نہیں کرتی اور ووٹ دینے کے اہل ہندو شہریوں کی کل تعداد کم از کم بھی 22 لاکھ سے 25 لاکھ تک کے درمیان ہونی چاہیے۔‘‘

دوسرے طرف مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے، انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم، ذیشان نوئیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ ووٹر لسٹوں میں مسیحی رائے دہندگان کی تعداد ماضی کے مقابلے میں دو وجوہات کی بنا پر کم ہوئی ہے۔ پہلی وجہ یہ کہ بہت سے شہریوں کے شناختی کارڈ ابھی بنے ہی نہیں۔ کئی بالغ افراد ایسے بھی ہیں، جن کے کارڈ مقررہ مدت پوری ہو جانے کے بعد موثر نہیں رہے لیکن وہ بروقت نئے کارڈ نہیں بنوا سکے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ شناختی کارڈ بن جانے کے بعد الیکشن کمیشن  کی جانب سے بطور ووٹر رجسٹر کرنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ ذیشان نوئل کے بقول نادرہ نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران چھ لاکھ خواتین کا اندراج کیا، لیکن الیکشن کمیشن اپنی لسٹیں بروقت اپ ڈیٹ نہ کر سکا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں