1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فاقہ زدہ ہزاروں تارکین وطن ہنگامی امداد کے منتظر

کشور مصطفیٰ12 مئی 2015

ملائشیا اور تھائی لینڈ کے نزدیک بحری جہاز پر سوار ہزاروں نہتے تارکین وطن کو انسانی کاروبار کرنے والوں کی طرف سے بے یارو مدد گار چھوڑ دیے جانے کے سبب وہاں ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FOio
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Yulinnas

اطلاعات کے مطابق ان تارکین وطن میں سے اکثریت کا تعلق روہنگیا مسلمانوں کے گروپ سے ہے ۔ روہنگیا میانمار کے علاقے’راکھین‘ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو کہتے ہیں نام ہےـ مسلمانوں کا یہ گروپ راکھین ریاست پر میانمار میں ظلم و تشدد سے تنگ آ کر بڑی تعداد میں تھائی لینڈ اور دیگر علاقوں کی جانب نقل مکانی کر رہا ہے۔

ملائشیا کے دارالحکومت میں خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے روہنگیا گروپ سے تعلق رکھنے والے ایک پریشان حال شخص نے بتایا کہ اُس نے اپنی بیوی سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیا ہے جو ایک ٹوٹی ہوئی کشتی میں اپنے تین بچوں کے ساتھ سوار ہے۔ اس ذریعے سے کشتی میں سوار نہتے مہاجرین کے لیے ہنگامی امداد کی اپیل سامنے آئی ہے۔

اراکان پروجیکٹ خلیج بنگال میں مہاجرین کے سفر کی نگرانی کرتا ہے۔ اس کے اہلکاروں نے کشتی میں سوار روہنگیا مسافروں سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے۔ اس ذریعے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق انسانوں کا کاروبار کرنے والوں نے تارکین وطن سے بھری کشتی کو پانیوں میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کشتی پر قریب 350 افراد سوار ہیں جن میں درجنوں خواتین اور بچے شامل ہیں اور اس کے انجن کے غیر فعال ہونے کے بعد انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ نے کشتی کو بے سمت حرکت کرتے ہوئے چھوڑ کر خود فرار ہوگیا ہے۔

Myamar Fischer vom Volk der Rohingya
مینمار سے تعلق رکھنے والے روہنگیا باشندے سمندری رستے فرار کی تلاش میںتصویر: Getty Images/P. Bronstein

اراکان پروجیکٹ کی بانی کرس لیوا نے ایک بیان میں کہا،" تارکین وطن مسافروں نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ گزشتہ تین روز سے بغیر پانی اور کھانے کے بے بسی کے عالم میں ہیں، انہوں نے ہنگامی امداد کی اپیل کی ہے" ۔ کرس لیوا نے مزید بتایا کہ یہ تارکین وطن اپنے محل وقوع کے بارے میں بھی غیر یقینی کا شکار ہیں، وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ تھائی لینڈ کے قریب جنوبی ملائشیا کے پانیوں میں ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہیں ساحلی علاقہ نظر آرہا ہے۔ لیوا کے بقول،"ہمیں بھی یہی پتہ ہے کہ یہ تارکین وطن کہیں ساحل سے نزدیک ہیں"۔

تارکین وطن سے رابطہ موبائل فونز کے ذریعے ہوا ہے جس کا تھائی نمبر ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس کشتی میں 50 خواتین اور 84 بچے سوار ہیں۔

کوالالمپور میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہنے والے ایک اور روہنگیا خاتون کے شوہر محمد ہاشم نے بھی بتایا ہے کہ اُس نے کسی طرح اس کشتی میں سوار اپنی بیوی سے بذریعہ ٹیلی فون بات کی ہے۔ اس شخص نے کہا،" میری بیوی نے بتایا ہے کہ اُن لوگوں کے پاس نہ پانی ہے نہ کھانا۔ جب چھوٹے بچے پیاس کی تڑپ سے رونے لگتے ہیں تو یہ مائیں سمندی پانی سے اُن کے لب کو ہلکا سا تر کر دیتی ہیں" ۔

Indonesien Rohingya Flüchtlinge aus Myanmar
انڈونیشیا میں بھی روہنگیا مہاجرین کسمپرسی کی حالت میںتصویر: Reuters/R: Bintang

محمد ہاشم جو 40 سال سے کچھ اوپر کی عمر میں ہے، اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔ بھرائی ہوئی آواز اور آنکھوں میں ڈب ڈباتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اُس نے اپنے بیان میں کہا،" میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ اگر ان لوگوں کی مدد نہیں کی گئی تو زندہ نہیں بچ سکتے" ۔

یہ امر ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا محمد ہاشم کی فیملی اُسی کشتی میں سوار ہے جس کے ساتھ اراکان پروجیکٹ نے رابطہ کیا ہے یا نہیں؟ ۔ تاہم ہاشم کے بیان کے مطابق اُس کی فیملی جس کشتی میں سوار ہے اُسے بھی انسانی اسمگلرز نے تنہا چھوڑ دیا ہے، اُس کا انجن بھی ناقص ہو چُکا ہے اور اس پر سوار مہاجرین سے تھائی لینڈ کے موبائل فون نمبر کے ذریعے رابطہ ہوا ہے۔

دریں اثناء اقوام متحدہ نے انتباہ کیا ہے کہ ہزاروں مہاجرین خوراک اور پانی کے بغیر سمندر میں پھنسے ہوئے ہیں اور اگر جنوب مشرقی ایشیائی حکومتوں نے ان کو بچانے کے لیے فوری اقدامات اور ان کی ہنگامی مدد نہ کی تو یہ مہاجرین موت کے مُنہ میں چلے جاسکتے ہیں۔