1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قاضی فائز عیسیٰ کا دورہ، جیوڈیشل ایکٹیوازم یا اظہار ہمدردی؟

19 اگست 2023

قاضی فائز عیسیٰ کے دورہ جڑانوالہ کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر سراہا جا رہا ہے۔ کئی لوگوں کے مطابق اس دورے سے جہاں مظلوم مسیحی متاثرین کو حوصلہ ملا ہے، وہیں اس اقلیتی کمیونٹی کے لیے انصاف کے راستے بھی وا ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/4VM1x
Pakistan | Angriffe auf Kirchen in Jaranwala
تصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

پاکستان کے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہفتے کے روز جڑانوالہ کے متاثرہ مسیحی علاقوں کا دورہ کیا اور مسیحی متاثرین کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے انتظامیہ کو اس واقعے کی شفاف تحقیقات کا حکم دیا۔

 16 اگست کو ایک مشتعل ہجوم نے 'مقدس اوراق‘  کی مبینہ بے حرمتی کے بعد مسیحی برادری کے کم از کم 86 گھروں اور 19 گرجا گھروں کو نذر آتش کر دیا تھا۔ پنجاب پولیس نے 1,470  افراد کے خلاف پانچ مقدمات درج کرکے ڈیڈھ سو سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج قاضی فائز عیسیٰ جب اپنی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے ہمراہ کسی لمبے چوڑے سیکورٹی و پروٹوکول کے بغیر ہی جڑانوالہ پہنچے تو علاقے کے لوگوں کے لیے ان کا دورہ کافی حیرانی کا باعث تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کرسچن کالونی کا دورہ کیا اور مسیحی متاثرین سےملاقات کی۔ وہ جلے ہوئے گرجا گھروں، مکانوں اور گلیوں میں بھی گئے۔ انہوں نے متاثرہ مسیحی لوگوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا اور گرجا گھر اور مکانات جلائے جانے کے واقعات  پر دکھ کا اظہار کیا۔

اقلیت کو ہونا ہی نہیں چاہیے

مسیحی برادری پر حملے، مددگار بھی مسلمان

واضح رہے کہ قاضی فائز عیسیٰ 17 ستمبر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد اگلے چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے۔ جسٹس عیسیٰ کے جڑانوالہ پہنچنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح شہر میں پھیل گئی اور بہت سے عام شہری بھی متاثرہ علاقے کے پاس پہنچ گئے۔

متاثرین پرنم ہو گئے

قاضی فائز عیسیٰ نے متاثرین سے واقعے کی تفصیلات معلوم کیں۔ اس موقع پر کئی متاثرین اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور ان کی آنکھیں نم ہوگئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متاثرین سے گفتگو کرتے ہوئے ان کو انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ  اور ان کی اہلیہ دانش اسکول میں مسیحی متاثرین کے لیے قائم کئے گئے امدادی کیمپ میں بھی گئے، جہاں انہوں نے متاثرین کے مسائل معلوم کیے۔

پاکستان: توہین مذہب کے الزام میں کئی چرچ نذرِ آتش

سرمئی اور سفید بالوں والے اس جوڑے نے کچھ وقت مسیحی متاثرین کے ساتھ گزارا۔ اس موقع پر سرینا عیسیٰ نے متاثرین میں امدادی سامان بھی تقسیم کیا اور مسیحی خواتین کوگلے لگا کر ان کو دلاسہ دیا۔

انتظامیہ کے افسروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ نے علاقے میں صفائی کے بہتر انتظامات نہ ہونے پر ناگواری کا اظہار کیا اور کہا کہ اس واقعے کے چار دن گزر جانے اور شواہد اکٹھے کر لینے کے بعد بھی اس علاقے میں صفائی تک نہیں کی گئی ہے۔

انہوں نے ایک سینئر پولیس افسر سے اس واقعے کے بارے میں بریفنگ لی اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ جس علاقے میں یہ واقعہ ہوا ہے اس علاقے کی پولیس ہی اس کی تفتیش کر رہی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ پولیس اس واقع کے وقت بروقت اقدامات کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئی۔ انہوں نے متعلقہ پولیس افسر کو بھی شامل تفتیش کرنے کا کہا۔

’مذبی آزادی کا حق سب کو حاصل ہے‘

اس موقع پر جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ انہیں بطور مسلمان، پاکستانی اور انسان ان واقعات سے دلی صدمہ پہنچا اور شدید دکھ ہوا ہے۔ ان کے بقول ان حملوں سے بانی پاکستان محمد علی جناح کی غیر مسلموں کو دی گئی ضمانتوں کی بھی خلاف ورزی ہوئی ہے، '' تعزیرات پاکستان کی دفعات 295 اور 295 اے کے تحت مذہبی مقامات اور علامات کو نقصان پہنچانا جرم ہے، اس پر قید اور جرمانے کی سزائیں ہیں۔‘‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ  گرجا گھروں پر کوئی حملہ کرے تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ جہاد کریں، ''آپ کو چرچ بنانے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مسلمان کو مسجد بنانے کا ہے، کسی میں کوئی تفریق نہیں، کوئی مہربانی نہیں، یہ آپ کا پورا حق ہے، سب سے زیادہ فرض مسلمانوں کا ہے کہ آپ کی مدد کریں۔‘‘

 قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ گرجا گھروں پر حملہ کرنے والوں نے اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کی۔ ان کے مطابق اسلامی شریعت کی اس خلاف ورزی کو کسی بدلے یا انتقام سے جواز نہیں دیا جا سکتا۔

متاثرین سے اظہار ہمدردری کا سلسلہ جاری

جڑانوالہ کے ایک صحافی قاسم حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہفتے کے روز جڑانوالہ کے اندرون اور بیرون ملک سے آنے والے کئی وفود نے متاثرہ مسیحی علاقوں کا دورہ کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی مسیحی برادری سے اظہار یک جہتی کے لیے جڑانوالہ پہنچے۔

تیری امت نے مرے گھر کی اہانت کی ہے

جڑانوالہ کا واقعہ: مسیحی برادری خوف کا شکار

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر قاضی فائز عیسیٰ کے اس دورے کو بہت سراہا جا رہا ہے۔ کئی لوگوں کے مطابق اس دورے سے جہاں مظلوم مسیحی متاثرین کو حوصلہ ملا ہے، وہاں اس طرح کے اقدامات سے انصاف کی فراہمی کے امکانات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بعض مبصرین کے نزدیک اس دورے سے عالمی سطح پر بھی ایک اچھا میسیج  گیا ہے۔

’جیوڈیشل ایکٹیوازم نہ کیا جائے‘

تجزیہ نگار سلمان عابد اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک جوڈیشل ایکٹوازم شہرت کے حصول کا ذریعہ تو ہو سکتا ہے لیکن یہ مسائل کا دیرپا حل نہیں ہے۔ ان کے خیال میں نظام انصاف کو اتنا بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے دوروں کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ اور ایسے واقعات کے ذمہ داروں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے عدلیہ اپنے حصے کا کام احسن طریقے سے کرے، ''مظلوموں کا اعتماد اداروں پر رہنا چاہیے نا کہ شخصیات پر‘‘

ایک اور کالم نگار آغر ندیم سحر کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ اس کیس کی تفتیش ہر زاویے سے ہونا چاہیے اور دیکھا جانا چاہیے کہ کہیں ایسے واقعات عام انتخابات کے حوالے سے پیدا ہونے والے دباؤ سے توجہ ہٹانے کے لیے تو نہیں ہو رہے۔

آغر کے بقول بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس کیس کے شروع میں میڈیا نے اس کا بلیک آوٹ کیا اور ان کی ساری توجہ نگران حکومتوں کی طرف رہی۔

اقلیتی برادریوں کے حقوق کے لیے مارچ