1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

قطب شمالی میں بدلتے موسم، امکانات اور خدشات

2 مارچ 2011

قطب شمالی ایک عرصے سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی زَد میں ہے اور برطانیہ کا معدنی تیل کا ادارہ بی پی اور روسی ادارہ روس نیفٹ چار برس بعد ہی وہاں تیل کی تلاش کے لیے کھدائی کا آغاز کرنے والے ہیں۔

https://p.dw.com/p/10STt
بحیرہء قطب شمالیتصویر: DW/Irene Quaile

دسمبر 2010ء میں بحیرہء قطب شمالی میں برف کی تہہ میں ریکارڈ کمی دیکھی گئی۔ برف پگھلنے سے بحری جہازوں کے نئے رُوٹ اور خام مادوں کے بے پناہ ذخائر سامنے آ رہے ہیں۔ جریدے ’یُو ایس جیولوجیکل سروے‘ کے اندازوں کے مطابق دُنیا بھر میں گیس کے اب تک دریافت نہ ہونے والے ذخائر کا 30 فیصد اور معدنی تیل کا 13 فیصد اِسی خطّے میں ہے۔

یہاں زمین کے اندر سونے، چاندی اور نکل کے ساتھ ساتھ ہیروں کے بھی ذخائر ہیں۔ جہاں حکومتیں اور ادارے للچائی ہوئی نظروں سے قطبِ شمالی کی طرف دیکھ رہے ہیں، وہاں تحفظ ماحول کے لیے سرگرم تنظیمیں اور گروپ اِس خطّے کے حساس ماحولیاتی نظاموں پر مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

NO FLASH Arktis
قطب شمالی میں تیل اور گیس کے وسیع تر ذخائر کی موجودگی کا اندازہ لگایا گیا ہےتصویر: AP

ناروے، ڈنمارک (گرین لینڈ)، روس، کینیڈا اور امریکہ کی سرحدیں قطبِ شمالی کے ساتھ ملتی ہیں اور یہی وہ ممالک ہیں، جو نئے امکانات میں زبردست دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان ممالک کے ماہرین اور سیاستدانوں کی ایک آرکٹک فرنٹیئرز کانفرنس ہر سال ناروے کے شہر ٹرومزے کی یونیورسٹی میں منعقد ہوتی ہے۔

اِسی کانفرنس میں شریک امریکی بحریہ کے سمندری جغرافیے کے ماہر ریئر ایڈ مرل ڈیو ٹِٹلی نے بتایا:’’ہمارے خیال میں یہ بالکل ممکن ہے کہ 2035ء اور 2040ء کے درمیان ہی بحیرہء قطبِ شمالی ہر سال تقریباً ایک مہینے کے لیے برف سے مکمل طور پر خالی ہو جایا کرے گا۔ رواں صدی کے وَسط تک یہ مدت بڑھ کر دو تا تین ماہ ہو سکتی ہے۔ تب ہمارے خیال میں بڑی جہاز راں کمپنیاں یقیناً اپنے رُوٹس پر اٹھنے والی لاگت اور فاصلوں کو کم کرنے کی کوشش کریں گی۔‘‘

حقیقت بھی یہ ہے کہ ایشیا اور یورپ کے درمیان بحری مسافت میں بہت زیادہ کمی ہو جائے گی۔ مثلاً شنگھائی سے ہیمبرگ تک کی مسافت میں نہر سویز کے روایتی روٹ کے مقابلے میں روس کے شمالی ساحلوں کے پاس سے گزرنے والے روٹ کی صورت میں چھ ہزار کلومیٹر سے زیادہ کی کمی ہو گی۔ گزشتہ برس ہی اِس شمالی روٹ کو استعمال کرتے ہوئے ایک سپر ٹینکر گیس لے کر روسی بندرگاہ مُرمانسک سے چین گیا تھا اور اِس میں معمول کے مقابلے میں محض آدھا وقت لگا تھا۔ آنے والے برسوں میں اِس راستے سے بحری سفر ایک معمول بن سکتا ہے۔

NO FLASH Klimawandel
قطبِ شمالی باقی زمین کے مقابلے میں دگنے سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ گرم ہو رہا ہے اور وہاں برف تیزی سے پگھل رہی ہےتصویر: picture alliance/chromorange

ناروے میں تحفظ ماحول کی علمبردار تنظیم گرین پیس کی ماحولیاتی امور کی ماہر فریڈا بینگٹسن کہتی ہیں:’’یہ بات بہت تشویشناک ہے کہ محض امکانات کا ہی ذکر ہو رہا ہے۔ ماضی میں بھی صنعت کو ترقی دینے کے امکانات ہی تھے، جن کے نتیجے میں اب بحیرہء قطبِ شمالی کی برف پگھل رہی ہے۔ ہمیں معیشت کے لیے امکانات سے زیادہ اِس بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ برف پگھلنے کی وجوہات کیا ہیں۔‘‘

تاہم موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے بین الاقوامی مذاکرات کا عمل طویل اور صبر آزما ہے۔ باقی زمین کے مقابلے میں قطبِ شمالی کا خطّہ دگنے سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ گرم ہوتا جا رہا ہے لیکن عالمی طاقتیں ماحولیاتی پہلوؤں پر تشویش ظاہر کرنے کی بجائے اِس خطّے سے حاصل ہونے والے کاروباری فوائد کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ بازی کی دوڑ میں مصروف ہیں۔

رپورٹ: آئرین کوئیل (ٹرومزے) / امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں