1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لائپزگ کتب میلے میں ریکارڈ افراد کی شرکت

21 مارچ 2011

جرمن شہر لائپزگ میں سالانہ کتب میلہ 17مارچ سے شروع ہو کر گزشتہ شب اختتام پذیر ہو گیا۔ اس مرتبہ کتابوں سے شغف رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد یہ میلہ دیکھنے آئی۔

https://p.dw.com/p/10d50
تصویر: DW/Nadine Wojcik

جرمنی ميں ہر سال کتابوں کے دو مشہور ميلے منقعد ہوتے ہیں۔ ان ميں فرينکفرٹ بک فیئرکاروباری اور تجارتی رجحانات کی وجہ سے مشہور ہے اور اسے دنیا کا سب سے بڑا کتب میلہ بھی کہا جاتا ہے جبکہ لائپزگ کے ميلے میں شوقِ مطالعہ اور مصنفین کے فنِ تحریر پر زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ لائپزگ کتاب میلے کی انتظامیہ کے مطابق لائپزگ اور فرینکفرٹ بک فیئر میں اب زیادہ فرق نہیں رہ گیا ہے۔ یقیناً اگر ملیہ دیکھنے آنے والوں کی تعداد کی بات کی جائے تو لائپزگ کا میلہ فرینکفرٹ سے بہت پیچھے ہے۔ تاہم ناشر، مصنفین اور اس شعبے کے ماہرین کے حوالے سے ان دونوں میلوں کا فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔

Leipzig Buchmesse 2011
اس مرتبہ 1 لاکھ 63 ہزار افراد نے لائپزگ میلے میں شرکت کیتصویر: DW/Nadine Wojcik

اس مرتبہ 1 لاکھ 63 ہزار افراد نے 17 سے 20 مارچ کے دوران لائپزگ کے اس میلے میں شرکت کی، جو گزشتہ برس کے مقابلے میں6 ہزار زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق اس بار کا بک فیئر ہر لحاظ سے کامیاب رہا۔ بک فیئر کے ڈائریکٹر اولیور سّلے اس بات پر بہت خوش تھے کہ امسالہ بک فیئر دیکھنے کے لیے ریکارڈ تعداد میں لوگ آئے۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ میلہ دیکھنے کے لیے آنے والوں اور نمائش کنندگان نے اس میلے کو کامیاب قرار دیا ہے۔ ہم نے اس میلے کے لیے انتھک محنت کی تھی اورزیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ ہمیں اس کا پھل مل گیا ہے‘‘۔

روایتی طور پر ہفتے کے دن لوگوں کی ایک بڑی تعداد لائپزگ کی نمائش کا رخ کرتی ہے اور اس سال بھی ایسا ہی ہوا۔ بچوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔

لائپزگ بک فیئر میں کومکس کو بھی نمایاں اہمیت دی جاتی ہے۔ جاپانی کومکس ’مانگا‘ نوجوانوں اور بچوں کی توجہ اپنے جانب مبذول کراتے ہیں اور جرمنی بھر سے بہت سے نوجوان اپنی پسندیدہ ’کومک فیگر‘ کا لباس پہن کر لائپزگ بک فیئر میں شرکت کرتے ہیں۔ تاہم اس مرتبہ جاپان میں زلزلے اور سونامی کی وجہ سے ان رنگوں میں خاصی کمی دکھائی دی اور ساتھ ہی کومکس فینز نے جاپان کے لیے چندہ بھی جمع کیا۔

Buchmesse Leipzig Fans
نوجوان اپنی پسندیدہ ’کومک فیگر‘ کا لباس پہن کر بک فیئر میں شرکت کرتے ہیںتصویر: DW/Nadine Wojcik

ہر سال اس میلے میں مشرقی اور جنوب مشرقی یورپ کے مصنفین اور ان کی تصانیف کو خاص طور پر شامل کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ بلقان کے خطے پر تمام تر توجہ مرکوز تھی اور سربیا مہمان ملک تھا۔ یوگوسلوایہ کے خاتمے کے بعد یہ پہلی مرتبہ تھا کہ سربیا کے ادب کو مغربی یورپ میں پیش کیا گیا۔ اس حوالے سے خاص طور پر30 کتابوں کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا۔

لائپزگ کتب میلے کے دوران شہر بھر میں مختلف مقامات پر متعدد محفليں منعقد ہوتی ہيں۔ ان میں معروف مصنفین اپنی تحریروں سے اقتباسات پڑھ کر سناتے ہيں۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : شامل شمس