1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لاہور خودکش حملے میں 11 ہلاک، 71 زخمی

13 فروری 2017

لاہور میں واقع صوبائی اسمبلی کے قریب ہونے والے ایک ’بڑے دھماکے‘ کے نتیجے میں کم از کم 11 افراد ہلاک اور 71 زخمی ہو گئے ہیں۔ اس خود کش حملے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/2XTrY
Pakistan Polizei und Rettungskräfte nach der Explosion in Lahore
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

لاہور کی مقامی پولیس کے مطابق یہ ایک 'بڑا بم دھماکا‘ ہے۔ پاکستان کے مقامی میڈیا کی ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 11 افراد ہلاک اور 71 زخمی ہو گئے ہیں جبکہ ہلاک ہونے والوں میں ڈی آئی جی ٹریفک لاہور احمد مبین اور ایس ایس پی پنجاب پولیس زاہد گوندل بھی شامل ہیں۔

کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے سربراہ ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا ہے کہ حملہ آور پیدل چل کر آیا جبکہ ایک مقامی پولیس افسر علی رضا کے مطابق یہ دھماکا اس وقت ہوا، جب ایک موٹر سائیکل سوار احتجاجی ریلی میں گھس گیا۔

جس احتجاجی ریلی میں یہ دھماکا ہوا، وہ حکومت کے خلاف تھی۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ادویات کے کاروبار سے وابستہ مختلف ایسوسی ایشنز کی اپیل پر اس احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا جا رہا تھا۔

Pakistan Polizei und Rettungskräfte nach der Explosion in Lahore
تصویر: Reuters/Stringer

 گزشتہ برس ایسٹر کے موقع پر بھی لاہور کے ایک پارک میں بم دھماکا ہوا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم ستر سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

پاکستان میں جماعت الاحرار کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ جماعت الاحرار کا موقف ہے کہ یہ کارروائیاں اُس فوجی آپریشن کے خلاف کی جا رہی ہیں، جس میں اس تنظیم کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ یہ تنظیم 2014ء میں تحریک طالبان پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد وجود میں آئی تھی۔

امریکا جماعت الاحرار کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ سلامتی کے ادارے پاکستان میں سرگرم تمام دہشت گردوں گروپوں میں سے جماعت الاحرار کو سب سے زیادہ شدت پسند قرار دیتے ہیں۔ اسی تنطیم نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور 2016ء کے آغاز پر لاہور کے ایک پارک پر ہونے والے حملے میں بھی یہی تنظیم ملوث تھی۔

انسداد دہشت گردی یونٹ کے ایک ذمہ دار نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تنظیم پاکستان کے افغانستان سے ملنے والے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ پاکستانی حکام کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ جماعت الاحرار اپنے حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں بیٹھ کر کرتی ہے او وہیں پر شدت پسندوں کو تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔