1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لندن بم حملے: ہدایات پاکستانی فون نمبروں سے دی گئیں، پولیس

3 فروری 2011

لندن پولیس نے کہا ہے کہ جولائی 2005ء کے بم حملوں میں ملوث گروہ کے سرغنہ کو ہدایات پاکستان سے موصول ہوئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان حملوں سے پہلے اسے راولپنڈی سے متعدد فون کالز موصول ہوئیں۔

https://p.dw.com/p/109fP
تصویر: dpa

لندن بم حملوں کے حوالے سے ہونے والی ایک سماعت میں بدھ کو ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ بمبار محمد صدیق خان کو پاکستان کے شہر راولپنڈی سے فون باکسز سے کالز موصول ہوتی رہیں۔

میٹروپولیٹن پولیس عہدے دار مارک سٹیورٹ نے بتایا کہ بہت سی فون کالز یکے بعد دیگرے مختلف پاکستانی فون باکسز سےکی گئیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کالر اپنی شناخت چھپانا چاہتا تھا۔

اس موقع پر سٹیورٹ سے پوچھا گیا، ’کیا آپ نے اس بات کاجائزہ لیا کہ ان فون کالز میں جو بات چیت ہوئی، اس میں بم بنانے کے طریقہ کار اور دھماکے کرنے سے متعلق معلومات دی گئی ہوں۔‘

اس پر سٹیورٹ نے جواب دیا، ’ہاں، میرا خیال ہےکہ ایسا ہی ہوا۔‘

انہوں نے بتایا کہ صدیق خان نے کبھی پاکستان فون نہیں کیا تھا، تاہم اس نے پاکستان میں چار فون نمبر دے رکھے تھے، جو خالصتاﹰ بم حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیے گئے۔

Nach Terroranschlag in London Doppeldeckerbus
لندن حملوں میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئےتصویر: AP

محمد صدیق کی نامعلوم افراد سے فون پر ہونے والی زیادہ بات چیت کا ریکارڈ مئی اور جون 2005ء سے ملتا ہے، لیکن ان میں سےچھ منٹ دورانیے کی ایک کال بم حملوں سے صرف پانچ دِن پہلے کی گئی۔ اس مقصد کے لیے آخری کال سات جولائی کو کی گئی، جس کا جواب نہیں دیا جا سکا تھا۔ اس وقت تک 30 سالہ محمد صدیق، بائیس سالہ شہزاد تنویر، اٹھارہ سالہ حسیب حسین اور انیس سالہ جرمین لنڈسے تین زیر زمین اسٹیشنوں اور ایک بس پر خودکش حملے کر چکے تھے۔

محمد صدیق اور شہزاد تنویز، دونوں کے بارے میں یہ پتہ چل چکا ہے کہ انہوں نے حملوں سے کچھ مہینوں پہلے پاکستان کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے اسامہ بن لادن کے دہشت گردی کے نیٹ ورک القاعدہ کے ارکان سے ملاقاتیں کیں۔

لندن کے ٹرانسپورٹ سسٹم پر حملے سات جولائی 2005ء کو ہوئے، جن کے نتیجے میں 52 افراد ہلاک ہوئے۔

رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں