1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ماہ رمضان اور ورلڈ کپ کے مسلمان کھلاڑی

امجید علی28 جون 2014

دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے روزوں کا مہینہ رمضان شروع ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ برازیل میں جاری فٹ بال ورلڈ کپ میں شریک مسلمان کھلاڑی اس دوران کیا طرزِ عمل اختیار کریں گے۔ علماء کوئی واضح ہدایات دینے سے گریز کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CRw6
الجزائر کے کھلاڑی اسلام سلیمانی 26 جون کو روس کے خلاف گول کرنے کے بعد سجدہ کرتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں
الجزائر کے کھلاڑی اسلام سلیمانی 26 جون کو روس کے خلاف گول کرنے کے بعد سجدہ کرتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیںتصویر: Reuters

1986ء کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ فٹ بال کا ورلڈ کپ رمضان کے مہینے میں کھیلا جا رہا ہے۔ اس مہینے میں مسلمان سحری کے وقت روزہ رکھتے ہیں اور پھر غروبِ آفتاب تک کچھ بھی نہیں کھاتے پیتے۔ اگرچہ جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے آج کل برازیل میں روزے کا دورانیہ یورپ کے مقابلے میں پانچ گھنٹے کم ہے لیکن پھر بھی الجزائر کی پوری ٹیم کے ساتھ ساتھ جرمنی، فرانس، سوئٹزرلینڈ اور بیلجیم کے مسلمان کھلاڑیوں کو بھی اس مشکل سوال کا سامنا ہے کہ وہ ایک ایسے وقت میں مذہبی فرائض کی بجا آوری کیسے کریں، جب اُنہیں کھلاڑی کے طور پر جسمانی مشقت کرتے ہوئے بہترین کارکرگی کا مظاہرہ بھی کرنا ہے۔

جرمن ٹیم کے مسلمان کھلاڑی مسعود اوزیل کے والدین کا تعلق ترکی سے ہے
جرمن ٹیم کے مسلمان کھلاڑی مسعود اوزیل کے والدین کا تعلق ترکی سے ہےتصویر: Getty Images

جرمن ٹیم کے کھلاڑی مسعود اوزیل کے والدین کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں اوزیل نے کہا کہ وہ پہلے سے ہی یہ طے کر چکے ہیں کہ اُنہیں کیا کرنا ہے:’’افسوس کہ مَیں روزے نہیں رکھ سکوں گا کیونکہ مَیں کام کر رہا ہوں گا۔‘‘

انگلش فٹ بال کلب ایف سی آرسینال میں اوزیل کے ساتھی کھلاڑی باکاری سانیا بھی مسلمان ہیں اور ورلڈ کپ میں فرانس کی طرف سے کھیل رہے ہیں۔ سیاہ فام سانیا کا بھی کہنا یہ تھا کہ وہ رمضان میں روزے نہیں رکھ سکیں گے۔ اُن کا کہنا تھا:’’مخصوص حالات میں ایسا کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور اسی لیے مَیں ایسا کر رہا ہوں۔‘‘ سانیا یہ بتانے سے قاصر رہے کہ دیگر مسلمان کھلاڑی اس مہینے کے دوران کیا طرزِ عمل اختیار کریں گے۔ اتنا اُنہوں نے ضرور کہا کہ چند ایک مسلمان کھلاڑی اُنہی کی طرح روزے نہیں رکھیں گے جبکہ کچھ دیگر نے میچوں کے دوران بھی روزے رکھنے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ سانیا نے کہا کہ وہ اپنے ان ساتھی کھلاڑیوں کو ’احترام کی نظروں سے‘ دیکھتے ہیں۔

ناک آؤٹ مرحلے میں جرمنی کا مقابلہ الجزائر کی ٹیم کے ساتھ ہو گا، جس کے تمام تر کھلاڑی مسلمان ہیں اور جنہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیسے ایک طرف ماہِ رمضان کا احترام بھی کریں اور دوسری طرف جسمانی طور پر اتنے فِٹ بھی رہیں کہ میچ میں بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ اس ٹیم کے چند ایک کھلاڑی یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ روزے رکھیں گے۔

باکاری سانیا بھی مسلمان ہیں اور ورلڈ کپ میں فرانس کی طرف سے کھیل رہے ہیں
باکاری سانیا بھی مسلمان ہیں اور ورلڈ کپ میں فرانس کی طرف سے کھیل رہے ہیںتصویر: Reuters

2011ء سے الجزائر کی ٹیم کے کوچ وحید خليلودزيتش نے البتہ پہلے ہی اپنے کھلاڑیوں کو یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ خود کو درپیش چیلنج کو دیکھتے ہوئے پیر کے روز بھی معمول کے مطابق خوراک کھائیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ الجزائر فٹ بال ورلڈ کپ کے ناک آؤٹ راؤنڈ تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس ٹیم کا اگلا میچ جرمنی کے ساتھ ہے، جس میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر کے یہ ٹیم ایک نئی تاریخ رقم کر سکتی ہے۔

مسلمان علماء ایک مدت سے اس سوال پر بحث کر رہے ہیں کہ روزوں اور بھاری جسمانی کارکردگی کے متقاضی کھیلوں کو کیسے ایک دوسرے سے ہم آہنگ کیا جائے۔ ترک اسلامی تنظیم Ditib کے چیئرمین عزت ایئر کہتے ہیں کہ بالآخر ہر کھلاڑی کو خود اپنے طور پر اور اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے کیونکہ بقول اُن کے ’قرآن میں اس سلسلے میں کوئی واضح احکامات موجود نہیں ہیں‘۔

فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا کے ڈاکٹروں کی ٹیم کے سربراہ ژیری ڈووراک نے کہا کہ اُن کے خیال میں ورلڈ کپ کے دوران مسلمان کھلاڑیوں کے گھاٹے میں رہنے کا احتمال نہیں ہے تاہم اُن کے ساتھی ڈاکٹر مائیکل ڈے ہوگ کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کو ورلڈ کپ کے نڈھال کر دینے والے مقابلوں کے دوران روزوں سے اجتناب برتنا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ ’ہر کھلاڑی کے مذہبی جذبات کا بے حد احترام‘ کرتے ہیں لیکن طبّی نقطہء نظر سے اس ٹورنامنٹ کے دوران باقاعدگی سے کھانا پینا بہتر ہو گا۔