1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معاہده گندمک اور فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام

شادی خان سیف، کابل
26 مئی 2018

انیسویں صدی میں برطانوی راج اور افغانستان کے مابین بفر زون کی حیثیت اختیار کرنے والے قبائلی علاقے کی اب پاکستانی صوبه کے پی کے میں شمولیت پر فی الحال کابل حکومت خاموش ہے تاہم عوام اور مبصرین کی بڑی تعداد اس کی مخالف ہے۔

https://p.dw.com/p/2yM07
Karte Afghanistan Pakistan DEU ENG

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے یا فاٹا کی تاحال قانونی حیثیت کے ریشے آج سے ٹیهک 139 برس قبل 26 مئی 1879 کے "Treaty of Gandamak” یا ’گندمک معاہدے سے جاملتے ہیں۔ جسے افغانستان میں ’د گندمک تڑون‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

پہلی افغان - انگریز جنگ (1839 -  1842) میں شکست کے بعد دره خیبر اور کوئٹه کے راستے افغانستان پر دوباره چڑهائی کرنے کے بعد برطانوی راج نے  کابل کے حکمران شاه محمد یعقوب خان کے ساتھ یه معاہده کیا، جس کے تحت افغانستان پر تو ان کی حکمرانی تسلیم کر لی گئی تاہم کئی سرحدی علاقے افغانستان کے کنٹرول سے چلے گئے۔

افغان تجزیه نگار محمد عاشق الله نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که اسی ’د گندمک تڑون‘ کے تسلسل میں برطانوی راج نے سابقه شمال مغربی سرحدی صوبے NWFP  بشمول میانوالی اور اٹک اور قبائلی علاقے کا کنٹرول افغانستان سے ضبط کر لیا تها: ’’اس سند کے مطابق ہی 1893 میں ڈیورنڈ لائن کهینچی گئی اور متحد ہندوستان سے برطانیه کے انخلا کے بعد اور پاکستان کے قیام کے بعد افغانستان میں کمزور حکومت کے باعث یه ایک بارڈر کے طور پر موجود رہی اور اس کے قریبی علاقے فاٹا دیگر پاکستان کے برعکس ایک خاص حیثیت میں رہے جبکه وہاں سے قبائلی عمائدین، طلبا اور تاجر آزادانه طور پر افغانستان آتے جاتے رہے۔‘‘

عاشق اللہ کے بقول، ’’گندمک معاهدے کی ایک اہم شق یه ہے که فریقین (برطانیه اور افغانستان) اور اب (پاکستان اور افغانستان) یک طرفه طور پر ان علاقوں سے متعلق کوئی قدم نہیں اٹهائیں گے، اب پاکستان نے یه اقدام اٹها کر افغانستان کے لیے بهی راه ہموار کر دی ہے که وه بهی اس معاہدے کو منسوخ سمجھے اور اس خطے پر اپنے حق کا معامله اٹهائے۔‘‘

پاکستانی پارلیمان کی جانب سے فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق آئینی ترمیم کی منظوری پر افغانستان کی وزارت خارجه نے فوری طوری پر رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم وزارت قبائل اور سرحدی امور نے البته کابل حکومت پر زور دیا ہے که عالمی سطح پر صدائے احتجاج بلند کی جائے۔

پارلیمان کے ایوان زیریں ’ولسی جرگه‘ کے رکن نادر خان کٹوازی نے بهی ایوان میں خطاب کے دوران یه معاملہ اٹهایا: ’’ہمارے تاریخی امور اور رابطوں میں یک طرفه مداخلت کا حق کسی کو نہیں پہنچتا، اگر حکومت خاموش ہے تو جرگے کو اس کے خلاف صدا بلند کرنی چاہیے۔‘‘

Pakistan Special Report Vergewaltigungen | Regionalparlament in Islamabad
پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعرات 24 مئی کو 31 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا بل منظور کیا تها۔تصویر: DW/I. Jabbeen

’لر او بر‘ یعنی پاکستان کی پشتون آبادی اور افغانستان کے اتحاد کے سرکرده وکیل اسماعیل یون نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران پاکستانی حکومت کے حالیه اقدام کو اب تک جاری ’استعماری ہتھکنڈوں‘ کا تسلسل قرار دیا، جس میں ان کے مطابق پہلے ان قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی آماجاگاه قائم کر کے بدامنی اور قبائلیوں کا قتل عام کیا گیا اور اب فوجی طاقت کا استعمال کر کے افغانستان میں مزید مداخلت کی راه ہموار کی جارهی ہے۔

اسماعیل یون کے مطابق، ’’یه تاریخی جبر پہلے بهی ايک طرف کمزور حکومت اور دوسری جانب ظالم قوت کی طرف سے عوام پر کیا گیا اور اب بهی کیا جارہا ہے۔ پاکستانی حکومت اس علاقے میں ترقی پسند، آزاد اور روشن فکر تحریکوں کو کچلنا چاہتی ہے  اور افغان حکومت کمزور اور داخلی مسائل میں گهری ہوئی ہے ایسے میں عوام پر اس قسم کی تقسیم اور فیصلے مسلط کیے جارہے ہیں۔‘‘

پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعرات 24 مئی کو 31 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا بل منظور کیا تها۔