1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملا عمر کا ’انتقال‘ مذاکرات پر منفی اثرات مرتب کرے گا

شکور رحیم، اسلام آباد29 جولائی 2015

افغان طالبان کے امیر ملا محمد عمر کسی لڑائی میں ہلاک ہوئے، طبعی موت مرے یا اب بھی زندہ ہیں، حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ افغان حکومت یا خود طالبان کی جانب سے ابھی تک ان کی موت کی خبر کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔

https://p.dw.com/p/1G75o
Mullah Mohammed Omar Gesucht FBI
افغان انٹیلیجنس نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ملا عمر دو سال سے زائد عرصہ پہلے وفات پا چکے ہیںتصویر: picture alliance/AP Photo

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صورتحال جو بھی ہو، ملا عمر کی ہلاکت سے متعلق خبر کے افغان حکومت اور تحریک طالبان افغانستان کے درمیان براہ راست مذاکرات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ امریکہ اور چین کے نمائندوں کی موجودگی اور پاکستان کے تعاون سے افغان حکومت اور تحریک طالبان افغانستان کے نمائندوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کا دو روزہ دوسرا دور کل جمعرات کو منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان مذاکرات کے مقام کے بارے میں ابھی تک سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا گیا۔

افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ موجودہ ماحول میں مذاکرات کا جاری رہنا بذات خود ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ پشتون پس منظر سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی صحافی کے طور پر ملا محمد عمر کے ساتھ انیس سو پچانوے سے لے کر کابل میں طالبان حکومت کے سقوط یعنی دوہزار ایک تک درجنوں بار ملاقات کرنے والے رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبر میں وزن ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر ملا عمر زندہ ہوتے تو افغان طالبان ابہام دور کرنے کے لیے کم ازکم ان کا ایک آڈیو بیان ضرور جاری کر دیتے۔ انہوں نے کہا کہ ’ملا عمر کے بعد یقیناً سب سے اہم مسئلہ ان کے جانشین کی تقرری ہے۔ اس سلسلے میں میرے خیال سے طالبان دور کے وزیر ہوابازی ملا اختر محمد منصور مضبوط امیدوار ہیں لیکن ان کی تقرری کا فیصلہ طالبان شوریٰ کرے گی اور دیکھنایہ ہو گا کہ طالبان کے مخلتف دھڑوں کا اس پر کیا رد عمل ہو گا‘؟

ملا عمر کی ممکنہ ہلاکت اور اس کے افغان حکام اور طالبان کے درمیان بات چیت پر اثرات کے حوالے سے رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا:’’پہلے ہی ایسی اطلاعات تھیں کہ طالبان کے چند دھڑے ان مذاکرات سے خو ش نہیں تھے اور اب ملا عمر کے بارے میں ایسی خبروں سے مزید ابہام بڑے گا اور غیر یقینی کی صورتحال طول پکڑے گی جو کسی بھی طرح اس مذاکراتی عمل کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اب تو یہ دیکھنا ہو گا کہ مذاکرات کا اگلا دور ہو بھی سکے گا یا نہیں؟ اور ہو گا تو افغان طالبان کی جانب سے اس کے شرکاء کون ہوں گے؟

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر اور سفارتی امور کے ماہر رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ ملاعمر کی ہلاکت یا انتقال کی صورت میں افغان طالبان کی صفوں میں پہلے جیسا اتحاد قائم رکھنا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں لمبے عرصے تک ملا عمر کی وجہ سے طالبان کی صفوں میں بڑی حد تک اتفاق تھا۔ چھوٹے موٹے اختلافات کی خبریں تو آتی رہتی تھیں لیکن کبھی کسی بڑی مخالفت یا لڑائی کا تاثر نہیں ملا‘۔

انہوں نے کہا کہ داعش جیسی نتظیم بھی اس خبر کے بعد سرگرم ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے لیے افغانستان میں زیادہ سے زیادہ تعاون اکٹھا کر سکے۔

Afghanistan Taliban
ملا عمر کے حوالے سے طالبان نے تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا، ملا عمر کی جانشینی کے حوالے سے طالبان دور کے وزیر ہوابازی ملا اختر محمد منصور مضبوط امیدوار ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

سابق سفیر کا کہنا تھا کہ اب افغان حکومت، امریکا، چین اور پاکستان کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں ملا عمر کی ہلاکت کی خبروں کے بعد کی پیشرفت پر نظر رکھیں اور اسی کے مطابق مستقبل میں مذاکرات کا ایجنڈا یا لا ئحہٴ عمل تیار کریں۔

خیال رہے کہ اس ماہ کی چھ اور سات تاریخ کو پاکستان، امریکا اور چین کے نمائندوں کی موجودگی میں افغان حکومت اور تحریک طالبان افغانستان کے نمائندوں کے درمیان اسلام آباد سے پینتالیس کلومیٹر کی مسافت پر واقع سیاحتی مقام مری میں امن مذاکرات کا پہلا دور ہوا تھا۔

اجلاس کے اختتام پر پاکستانی دفترخارجہ نے کہا تھا کہ مذاکرات کا اگلا دور فریقین کے درمیان باہمی اتفاق رائے سے رمضان کے بعد منعقد ہو گا۔ ایک بیا ن میں کہا گیا تھا کہ شرکاء نے افغانستان میں قیام امن اور مفاہمت کے طریقہٴ کار اور ذریعوں پر تبادلہٴ خیال کیا۔

بیان کےمطابق ’شرکاء نے امن اور مفاہمت کےعمل کے لیے ساز گار ماحول پید اکرنے کے سلسلے میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا‘۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید