1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل کی ’سیاسی بقا‘ کا فیصلہ، پارلیمنٹ میں ووٹنگ

29 ستمبر 2011

یورو زون کے اقتصادی بحران کے حل کے لیے امدادی منصوبے کے حوالے سے برلن میں ارکان پارلیمنٹ آج ووٹ ڈال رہے ہیں۔ اس مرحلے کو چانسلر انگیلا میرکل کے لیے کڑا امتحان قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/12ilc
جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: dapd

خبر رساں ادارے روئٹرز نے جرمن پارلیمنٹ میں ہونے والی جمعرات کی ووٹنگ کو چانسلر انگیلا میرکل کے لیے سیاسی بقا کی جنگ قرار دیا ہے۔

دراصل میرکل کے بعض اتحادی یونان کو مالی امداد دیے جانے پر پریشان ہیں اور یورو زون کے امدادی منصوبے پر ہونے والی ووٹنگ میں میرکل کو شرمندہ کر سکتے ہیں۔

سینٹر لیفٹ اپوزیشن کی حمایت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ جرمنی یورپین فنانشل اسٹیبیلیٹی فیسیلٹی (ای ایف ایس ایف) کے لیے نئے اختیارات کا بل منظور کرے۔ فن لینڈ اور بعض دیگر ممالک اس بل کی توثیق کر چکے ہیں لیکن سلوواکیہ سمیت بعض دیگر اس سے اختلافِ رائے رکھتے ہیں۔

تاہم اپنے اتحادیوں کی مخالفت کی صورت میں بل کی منظوری کے لیے انگیلا میرکل کو اپوزیشن کے ووٹ پر انحصار کرنا پڑا تو یہ ان کے لیے سیاسی خسارے کے مترادف ہو گا۔

میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹس (سی ڈی یو) اور ان کے اتحادی چند منحرف ساتھیوں پر دباؤ ڈال رہے کہ وہ ووٹنگ سے پہلے اپنی رائے بدل لیں، جو مقامی وقت کے مطابق گیارہ بجے ہوگی۔ نتائج تقریباﹰ آدھے گھنٹے میں سامنے آ  جائیں گے، تاہم کتنے حکومتی ارکانِ پارلیمنٹ نے اس بل کی مخالفت میں ووٹ ڈالا، اس کا پتہ چلنے میں مزید ایک گھنٹہ لگ جائے گا۔

Puzzlebild Triptychon Deutschland Reichstagsgebäude mit Flaggen Dossierbild 2
پارلیمنٹ میں ووٹنگ جمعرات کو ہو رہی ہےتصویر: picture alliance / dpa

سی ڈی یو کے سیکنڈ اِن کمانڈ ہیرمان گروئیہے نے روئٹرز سے بات چیت میں کہا: ’’ہم انہیں قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘

انہوں نے کہا کہ حکوت سوشل ڈیموکریٹس (ایس ڈی پی) اور گرینز پر انحصار کرتے ہوئے شرمندگی نہیں اٹھانا چاہے گی۔ میرکل اپنے اتحادیوں کو اس بات کی یقین دہانی کرانے کی کوشش کر چکی ہیں کہ یونان کے لیے نئے امدادی پیکیج پر ووٹنگ کے ذریعے جرمن ٹیکس دہندگان کا پیسہ ضائع نہیں کیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے اس بات کو بھی خارج  از امکاں قرار نہیں دیا کہ یونان دیوالیہ ہوا تو قرضہ معاف کیا جا سکتا ہے۔

 

رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں