1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل کی پارٹی کا انتخابی منشور، مہاجرین سے متعلق سخت پالیسی

شمشیر حیدر
25 مارچ 2017

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) مہاجرین کے بارے میں سخت پالیسی کے منشور کے ساتھ انتخابات میں حصہ لے گی۔ یوں آخرکار یہ جماعت بھی ’مہاجرین کو خوش آمدید‘ کے نعرے سے ہٹ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2ZxBK
USA - Donald Trump trifft Angela Merkel
تصویر: picture-alliance/AdMedia/CNP/P. Benic

اے ایف پی اور ڈی پی اے نے موقر جرمن جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ کے حوالے سے لکھا ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت، سی ڈی یو نے اس سال کے انتخابات میں مہاجرین سے متعلق سخت پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) نے سی ڈی یو کے اس منصوبے پر شدید تنقید کی ہے۔

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

میگزین نے میرکل کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے اہم رہنماؤں کے حوالے سے لکھا ہے کہ اب میرکل کی جماعت ’’تمام تر ایسے اقدامات کرے گی جن کے ذریعے ملک میں مہاجرین کی تعداد کو مستقل بنیادوں پر کم سے کم رکھا جا سکے۔‘‘

اشپیگل کے مطابق سی ڈی یو نے اس حوالے سے بیس صفحات پر مشتمل ایک مسودہ بھی تیار کر لیا ہے جسے ’جرمنی میں آزاد اور محفوظ زندگی‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ دستاویز جرمن چانسلر کے لیے امسال ہونے والے انتخابات میں بنیادی منشور کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس دستاویز میں پیش کی گئی تجاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ مہاجرین کے اہلِ خانہ کو مارچ 2018ء کے بعد سے جرمنی آنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس منصوبے سے سب سے زیادہ جرمنی میں مقیم شامی مہاجرین متاثر ہوں گے۔

علاوہ ازیں اس بیس صفحاتی دستاویز میں یہ بھی شامل ہے کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے کسی غیر ملکی نے اگر اپنی شناخت چھپانے، یا شناخت سے متعلق کسی غلط بیانی سے کام لیا تو اس کی پناہ کی درخواست فوری طور پر مسترد کر دی جائے گی۔

کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے جرمنی کی مختلف وفاقی ریاستوں میں برسر اقتدار دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان جماعتوں میں خاص طور پر ایس پی ڈی، گرین پارٹی اور بائیں بازو کی جماعت کے بارے میں میرکل کی سیاسی جماعت کا کہنا ہے کہ یہ جماعتیں جرمنی سے مہاجرین کی ملک بدری میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔

اس حوالے سے بھی اس دستاویز میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ آئندہ اگر صوبائی حکومتیں غیر ملکیوں کو ملک بدر نہ کریں تو وفاقی حکومت کو خصوصی اختیارات حاصل ہونے چاہییں کہ مرکزی حکومت صوبائی حکومت کی رضامندی کے بغیر کسی بھی تارکین وطن کو جرمنی سے ملک بدر کر سکے۔

اس کے علاوہ  اس دستاویز میں بیان کیا گیان ہے کہ ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے مہاجرین سے متعلق معاہدے کی طرح شمالی افریقی ممالک سے بھی مہاجرین کی واپسی کے معاہدے کیے جائیں گے۔

دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں

جرمنی: طیارے آدھے خالی، مہاجرین کی ملک بدری میں مشکلات حائل

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے