1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی جرمن حکومت کے 100 دن

4 فروری 2010

28 اکتوبر کو وفاقی جرمن پارلیمان نے انگیلا میرکل کو دوبارہ جرمن چانسلر کی حیثیت سے چنا تھا۔ 5 فروری کو کرسچین ڈیمو کریٹک یونین سی ڈی یوْ اور فری ڈیموکریٹک پارٹی ایف ڈی پی کی موجودہ مخلوط حکومت کے 100 دن مکمل ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/Lsnp
جرمن وزیر دفاع گٹن برگ اور وفاقی چانسلر انگیلا میرکلتصویر: AP

برطانیہ جسے پارلیمانی نظام کا مادری ملک کہا جاتا ہے، میں کسی بھی حکومت کے پہلے 100 دنوں کو ’رعایتی مدت‘ کے طور پر سمجھا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے ان سو دنوں کے اندر حکومت کی کارکردگی سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاتیں بلکہ اسے پوری طرح سے فارم میں آنے کی مہلت دی جاتی ہے۔ تاہم جرمنی میں معاملہ کچھ مختلف ہے۔ میرکل اور ویسٹر ویلے کی مخلوط حکومت کو شروع ہی سے اپوزیشن اور میڈیا دونوں ہی کی طرف سے کڑی تنقید کا سامنا رہا ہے۔

سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ چار سال تک حکومت کرنے کے بعد انگیلا میرکل کی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی سی ڈی یوُ نے فری ڈیمو کریٹک پارٹی ایف ڈی پی کے ساتھ نئی مخلوط حکومت بنانے کے بعد پہلے 100 دن گزار لئے ہیں۔ تاہم مخلوط حکومت کی تشکیل کا عمل خاصا مشکل تھا کیونکہ اس کی شرائط بڑی کڑی تھیں۔ عالمی اقتصادی بحران نے جرمنی کی نئی حکومت کے لئے سیاسی سطح پر بازی گری کے زیادہ مواقع نہیں چھوڑے۔ دوبارہ منتخب ہونے والی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے پہلے حکومتی بیان میں ہی عوام کو آنے والے کٹھن وقت سے خبر دار کر دیا تھا۔ اس وقت نہوں نے کہا تھا ’خواتین و حضرات حقیقت یہ ہے کہ حالات میں بہتری سے پہلے ہمیں سنگین تر مسائل کا سامنا ہوگا‘۔

امریکی کانگریس سے خطاب کا اعزازحاصل کرنے سے پہلے ہی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو ڈیٹرائٹ سے یہ اطلاع مل گئی تھی کہ جنرل موٹرز اپنے ذیلی جرمن موٹر ساز ادارے اوپل کو رکھنا چاہتا ہے۔ یہ اطلاع میرکل کے اوپل کو ایک آسٹریا اور کینیڈا کی ایک مشترکہ فرم میگنا کے ہاتھوں فروخت کرنے کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گیا۔ اس سے بڑا دھچکا جرمن چانسلر میرکل کے لئے گزشتہ ستمبر میں قندوز میں ہونے والا واقعہ تھا، جس میں ایک جرمن فوجی افسر کے حکم پر طالبان کی جانب سے اغوا شدہ آئل ٹینکرز پر فضائی بمباری کی گئی تھی جس کے نتیجے میں درجنوں شہری ہلاک ہوئے تھے۔

اس سارے واقعے میں اس وقت کے جرمن وزیر دفاع اور سی ڈی یو کے لیڈر فرانس یوزف یونگ کو بہت زیادہ تنقید کا سامنا تھا۔ یہاں تک کہ انہوں نے نئی حکومت میں وزیر محنت کےعہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ نئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے ایک ماہ بعد ہی سابقہ وزیر دفاع کے استعفے کے سبب جرمنی کی چند اہم وزارتوں میں تبدیلی نا گزیر ہوگئی۔ مثلاً وزیر خاندانی امور اُرزولا فون ڈئرلائن کو سماجی امور کی وزرات سونپ دی گئی اور ان کی جگہ ایک 32 سالہ غیر شادی شدہ اور بے اولاد خاتون سیاست دان کرسٹینا کوہلر کو خاندانی امور کی وزیر مقرر کردیا گیا۔ اس فیصلے پر مختلف حلقوں ی طرف سے فوری رد عمل سامنے آیا اور اس پر کڑی تنقید ہوئی۔

Franz Josef Jung Rücktritt
فرانس یوزف یونگتصویر: AP

جرمنی کی خارجہ پالیسی کی کامیابیوں کو بہت حد تک جرمن چانسلر نے اپنی سیاسی صلاحیتوں کے مظاہرے کے طور پر پیش کیا۔ کوپن ہیگن کی عالمی ماحولیاتی سمٹ کے انعقاد تک۔ اس کانفرنس میں ’ماحولیات کی چانسلر‘ کے خطاب کے ساتھ پہنچنے والی انگیلا میرکل کو دیکھنا پڑا کہ تحفظ ماحولیات کے بارے میں اہم فیصلوں سے متعلق عالمی لیڈروں نے کس طرح کی توڑ جوڑ کر رکھی تھی۔ میرکل نے کوپن ہیگن کی کانفرنس کے بارے میں کہا تھا ’مذاکرات نہایت کٹھن تھے اور ان فیصلوں کے بارے میں میرے جذبات ملے جلے ہیں۔ ہمیں یہ مشکل فیصلہ کرنا تھا کہ آیا ہم اس سلسلے کو آگے بڑھائیں یا مذاکرات منقطع کر دئے جائیں‘۔

جرمنی کی افغانستان سے متعلق نئی حکمت عملی سمیت متعدد دیگر پالیسیوں کے سبب موجودہ حکومت کے پہلے 100 دنوں میں اسے کڑی تنقید اور شدید دباؤ کا سامنا ہے تاہم اس کے باوجود ایک حیران کن حکومتی استحکام بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں