1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیا وائرس، تباہ کن نتائج کا امکان کم

حرا مرید21 مئی 2013

کچھ عرصے سے ایک ایسے نئے خوفناک وائرس کے بارے میں خبریں گردش میں ہیں، جو لاکھوں لوگوں کو مارنے کی صلاحیت رکھتا ہو گا۔ تاہم آسٹریلیا کے ایک نوبل انعام یافتہ سائنسدان کے مطابق ایسی خبروں سے زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/18bKe
تصویر: DW

پیٹر ڈوہرٹی نے 1996ء میں اپنے کام کے حوالے سے نوبل انعام حاصل کیا تھا۔ 21 مئی بروز منگل اس سائنسدان نے کہا، زیادہ سے زیادہ یہ ایک ایسے نئے وائرس کا خطرہ ہے، جو ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہو گا اور زیادہ ہلاکت خیز ہو گا۔

آسٹریلین سائنسدان کے مطابق اس طرح کی صورتحال 1918ء میں پیدا ہوئی تھی، جب ایک انفلوئنزا وائرس کے باعث اندازاً 50 ملین سے زائد لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ تعداد پہلی عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد سے دگنی تھی۔

ڈوہرٹی کا مزید کہنا تھا کہ ایسا وائرس دوبارہ پھیل تو سکتا ہے لیکن اس بات کا امکان کم ہے کہ یہ اس قدر تباہ کن نتائج کا حامل ثابت ہو گا۔

اوٹاگو یونیورسٹی کے ویلنگٹن کیمپس میں لیکچر دیتے ہوئے ڈوہرٹی نے کہا کہ 1918ء میں ہونے والی اموات کی وجہ بلاشبہ سیکنڈری بیکٹیریل انفیکشنز تھے لیکن اب اینٹی بائیوٹکس کی مدد سے ایسے انفیکشنز کا علاج ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کل کی دنیا میں لوگ ایسی ٹیلی وژن رپورٹوں کو زیادہ شوق سے دیکھتے ہیں اور ایسی بہت سی کتابیں بھی ہیں، جن میں ایسے خطرناک وائرسز کی پیشین گوئیاں کی جاتی ہیں ، جو پوری انسانی آبادی کو ہی صفحہء ہستی سے مٹا دیں گے۔

Coronavirus
تصویر: Center for Disease Control

ڈوہرٹی کے مطابق ایک دہائی پہلے ابھرنے والے اُس مہلک سارس وائرس کا تجزیہ کرنے میں تین ماہ لگے تھے، جس کی وجہ سے 800 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ میلبورن یونیورسٹی کے سائنسدان کا کہنا تھا کہ اسی کام کے لئے اب صرف کچھ دن لگیں گے۔ مزید ان کا کہنا تھا کہ آج کل وائرس کی تشخیص اور اس سے متعلق تمام معلومات کا تیزی سے پتہ لگانا ممکن ہو چکا ہے اور ماضی کے مقابلے میں ہم کافی بہتر کام کر رہے ہیں اس لیے یہ نہیں لگتا کہ یہ موذی مرض تمام انسانوں کو ہلاک کر دے گا۔

ڈوہرٹی کا کہنا تھا کہ سوائن فلو H1N1 نے 2009 ء میں پوری دنیا کے کئی ملین لوگوں کو بیمار کیا تھا لیکن ایک سے دوسرے انسان کو تیزی سے منتقل ہونے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود اس وائرس کے نتجے میں شرح اموات قدرے کم تھی اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو رپورٹ کی جانے والی ہلاکتوں کی تعدادساڑھے اٹھارہ ہزار رہی تھی۔

اس سال مارچ میں چین میں پھیلنے والے ایک اور وائرس H7N9 کے حملے کے نتیجے میں 130 افراد بیمار ہوئے، جن میں سے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 36 افراد ہلاک ہو گئے لیکن ابھی تک اس بات کا کوئی ثبوت نہیں مل سکا کہ یہ وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہو سکتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن گزشتہ برس ستمبر سے لے کر اب تک 40 افراد کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق کر چکی ہے۔ SARS سے جڑے اس وائرس کے نتیجے میں اب تک 20 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔

hm/aa (AFP)