1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Ismat Jabeen

عصمت جبیں18 جولائی 2008

سن 1918ء میں اٹھارہ جولائی کو پیدا ہونے والے جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا پورے 90 برس کے ہو گئے۔ آج اُنہیں پوری دنیا مبارکباد دے رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/EeyQ
نیلسن منڈیلا نے اپنی سالگرہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ منائی۔تصویر: AP

نیلسن منڈیلا نے گزشتہ صدی کے دوسرے حصے میں عالمی سیاست کو اتنا متاثر کیا جتنا دنیا کا شاید کوئی بھی دوسرا سیاستدان نہیں کر سکا ۔ اُن کی سالگرہ پر اُنہیں دنیا بھر کے قائدین ہی نہیں، عام شہریوں کی جانب سے بھی زبردست خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

سیاسی سماجی اور اخلاقی حوالے سے نوے سالہ منڈیلا اتنی قد آور شخصیت ہیں کہ ان کی عشروں کی جدوجہد نے نہ صرف جنوبی افریقہ بلکہ پورے براعظم افریقہ کی جدید تاریخ کا پانسہ ہی پلٹ کر رکھ دیا ۔ نوے سا ل کا ہونے پر اتنے بڑے پیمانے پر مباک بادیں وصول کرتے ہوئے اپنے تاثرات انھوں نے کچھ یوں بیان کئے۔

’’حقیقی زندگی میں ایک نوّے سالہ شخص کو دیکھنا ایک ناقابلِ مزاحمت ترغیب معلوم ہوتی ہے۔‘‘

Nelson Mandela 1956
نیلسن منڈیلا سن 1956ء میں اپنے خلاف پہلے مقدمے کے دوران اپنے حامیوں کے گھیرے میں۔تصویر: AP/Peter Magubane

نیلسن منڈیلا نےایک ایسے ماحول میں جنم لیا، جہاں ایک سفید فام اقلیت، سیاہ فام اکثریت پر حکومت کر رہی تھی۔ نسلی امتیاز پر مبنی نظام والی سفید فام اقلیتی حکومت کے خاتمے میں افریقن نیشنل کانگرس نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اے این سی نامی اس جماعت کی بنیاد بھی نیلسن منڈیلا نے انیس سو چوالیس میں خود ہی رکھی تھی۔ بعد ازاں انھیں عشروں تک قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ۔

نیلسن منڈیلا نے1962ء میں خفیہ طور پر الجزائر میں ہتھیاروں کی تربیت حاصل کی۔ نسل پرستی کے خلاف ان کی کوششیں 1990ء میں اس وقت کامیاب ثا بت ہوئیں جب نہ صرف ANC پر پابندیاں ختم کر دی گئیں اور 27 سال کے طویل عرصے کے بعد منڈیلا کو رہا کر دیا گیا بلکہ بتدرج نسلی امتیاز پر مبنی نظام بھی ختم ہوتا چلا گیا۔

Nelson Mandela endlich frei
منڈیلا گیارہ فروری سن 1990ء کو اپنی رہائی کے فوراً بعد۔تصویر: AP

1994ء میں نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر بنے ۔ منڈیلا نے اپنی منزل کے حصول کی خاطر خاموش جدوجہد کا ایک ایسا مؤثر راستہ اپنایا کہ وہی سفید فام اقلیت جو نسل در نسل جنوبی افریقہ میں اقتدار پر قابض چلی آ رہی تھی، حکمرانی کا حق سیاہ فام اقلیت کے حوالے کرنے پر مجبور ہوگئی اور وہ بھی پر امن طور پر ۔ 1993ء میں جنوبی افریقہ کے آخری سفید فام صدر ڈی کلارک اور خود نیلسن منڈیلا کو مشترکہ طور پر نوبل امن انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔

آج کل منڈیلا عملی سیاست سے کنارہ کش ہو چکے ہیں ۔ اس کے باو جود وہ افریقہ اور دنیا بھر میں مساوات، ترقی کے برابر امکانات اور مجموعی انصاف کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ متاثر کن بات یہ یے کہ نیلسن منڈیلا کا بڑھاپا اور اُن کی جسمانی کمزوری اُن کے ارادوں کو کمزور نہیں کر سکی ۔ وہ کہتے ہیں:

’’میں اپنے آپ کو ایک پچاس سالہ نوجوان کی طرح محسوس کر رہا ہوں۔‘‘

منڈیلا نے ہمیشہ کہا کہ مکمل کامیابی کے حصول تک جدوجہد جاری رکھی جانی چاہیے اور انصاف میں کہیں کسی بھی جگہ کسی بھی وجہ سے تھوڑی کمی رہ جائے تو وہ مکمل انصاف نہیں ہوتا۔ منڈیلا کے مطابق دنیا میں غربت، بیماری اور بھوک کے خاتمے کے لئے انسانوں کو ان کے رنگ یا نسل کے فرق سے بالاتر ہو کر مساوی امکانات حاصل ہونے چاہییں ۔