1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وزیرستان آپریشن: ہزاروں مہاجرت پر مجبور

رپورٹ :عابد حسین ، ادارت: شادی خان سیف18 اکتوبر 2009

فوجی کارروائی کے نتیجے میں ہزاروں افراد اپنے گھر بار سے محروم ہو کر کسی محفوظ مقام کی تلاش میں پہلے سے روانہ ہیں جبکہ حکومت ایک بار پھر عالمی امدادی اداروں کی جانب دیکھ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/K9Cz
تصویر: AP

ممکنہ طورپراگلے دو ماہ تک جاری رہنے والے فوجی آپریشن کے اقتصادی اثرات سوات آپریشن سے بھی زیادہ گہرے ہو سکتے ہیں ۔ اِس آپریشن کی وجہ سے بچے کچے مقامی افراد کو خاصی تکلیف کا سامنا ہے۔ چھوٹے بڑے راستے فوجی کی نگرانی میں ہیں اور وہ پوری طرح آمد و رفت کے لئے بند ہیں۔ اِن راستوں سے فوج اپنے دستوں اور اسلحے کو مرکزی جنگی علاقوں تک پہچانے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ رسد میں کمی بیشی کا بہر حال فائدہ طالبان کو پہنچے گا اور فوجی آپریشن کے کمانڈر اِس سے آگاہ ہیں۔ پورے علاقے میں کرفیو کا نفاذ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے رہے سہے پریشان حال افراد کی حرکت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اِس ساری صورت حال میں زخمیوں کی حالت بہت خراب ہونے کا امکان ہے کیونکہ کرفیوں اور نقل و حمل محدود ہونے کی وجہ سے اِن کا کسی طبی مرکز تک پہنچایا جانا مشکل امر دکھائی دیتا ہے۔

Hakeemullah Mehsud Nachfolger für Taliban-Chef ernannt
طالبان رہنما حکیم للہ محسودتصویر: dpa

امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اِن مہاجرین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک ہو سکتی ہے۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی کے خیال میں ایسے متاثرین نوے ہزار تک ہو سکتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے حالات کا اندازہ کرتے ہوئے محفوظ مقامات کی جانب پہلے سے رخ کر لیا تھاجنوبی وزیرستان کے قریبی بڑے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سمیت دوسرے اہم قصبوں تک پہنچنے والے افراد کی باقاعدہ رجسٹریشن کا عمل شروع ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد کسی وقت ایک لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ آنے والے دنوں میں موسم سرما کی شدت کے باعث اِن افراد کو کیمپوں میں انتہائی نامساعد حالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس باعث متعدی امراض کے پھیلنے کے خطرے کو خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا۔

اِس تازہ فوجی کارروائی کے نتیجے میں مزید ہزاروں افراد اپنے گھر بار سے محروم ہو کر بے یارو مددگار کسی محفوظ مقام کی تلاش میں پہلے سے روانہ ہیں۔ پاکستان کے مقامی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سوات اور دیر کے مہاجرین کی بحالی ابھی ادھوری تھا کہ اب وزیرستان سے فوجی ایکشن کے باعث نقل مکانی کرنے والوں کا بوجھ بھی پاکستانی معیشت پر کاری ضرب لگائے گا۔ تازہ مہاجرین کی آبادکاری کے حوالے سے پاکستان کی مرکزی قیادت ایک بار پھر عالمی امدادا اداروں کی جانب دیکھ رہی ہے۔#

Pakistans Innenminister Rehman Malik auf PK zum Tod des Talibanführers Mehsud
وزیر داخلہ رحمان ملکتصویر: AP

پاکستانی فوج نے سوات میں مقامی انتہاپسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی تکمیل کے بعد جنوبی وزیرستان کے قبائلی علاقے میں اپنے زمینی آپریشن کو شروع کردیا ہے۔ اِس آپریشن کی بات بہت دنوں سے جاری تھی۔ پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی پانچ اکتوبر کوپشاور کے خودکش کار بم حملے کے بعدوزیرستان کے طالبان کو انتباہ دیا تھا کہ وہ زمین حقائق کو سمجھتے ہوئے ہتھیار پھینک دیں۔

پانچ اکتوبر کے بعد کا ہفتہ پاکستان کے اندر سلامتی کے صورت حال میں کئی دراڑیں ڈال گیا۔ راولپنڈی کے فوجی صدر دفتر سے لے کر لاہور میں پولیس کے مراکز پر حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ایک سو سے تجاوز کر گئی تھی۔ طالبان کے ہر حملے کے بعد یہ احساس زور پکڑتا جا رہا تھا کہ فوج اب کب اپنے آپریشن کا آغاز کرے گی۔ حالانکہ اِس سلسلے میں فوج پندرہ جون سے تیاریوں میں مصروف تھی۔

اب فوج کے دو ڈویژنز نے طالبان لیڈر حکیم اللہ محسود کے ٹھکانے کی جانب بڑھنا شروع کردیا ہے۔ اِس کارروائی میں پیدل دستوں کو بھاری توپ خانے کے علاوہ جنگی ہوائی جہازوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ پاکستانی فوج نے تین اطراف سے پیشقدمی شرع کی ہے۔ ہدف کی جانب بڑھنے کے حوالے سے فوج نے شمال، مشرق اور مغرب سے انتہائی دشوار گزار ٹارگٹ کی جانب چڑھائی کی ہے۔ تنگ راستوں اور پہاڑیوں میں فوج کو ہمہ وقت مقامی طالبان کے خوفناک دھاووں کا احساس رہے گا اور یہ یقینی امر بھی ہے۔ اِن راستوں پر مقامی انتہاپسند طالبان کی جانب سے سخت مزاحمت ابھی سے دی جا رہی ہے۔ فریقین بھاری اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں۔

دوسری جانب قبائلی طالبان کی عسکری قوت کے ماہرین کی سوچ ہے کہ بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد اب پاکستانی طالبان دھڑوں میں موجود ہیں اور وہ ایک متحدہ قوت سے عاری ہونے کے باعث فوج کو زوردار مزاحمت دینے میں ناکام رہ سکتے ہیں۔ لیکن یہ امر بھی اہم ہے کہ یہ مختلف دھڑوں میں موجود عسکریت پسند فوج کو آگے پیچھے سے گھیرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر کوئی ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو فوج کی مشکلات دو چند ہو جائیں گی۔