1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹکٹوں کی تقسیم: تحریک انصاف کی قیادت کے خلاف انصاف کی دہائی

عبدالستار، اسلام آباد
21 جون 2018

آئندہ عام انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم پر پاکستان تحریک انصاف کے کارکن اپنے رہنما عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ’انصاف کی دہائی‘ دے رہے ہیں لیکن عمران خان ان کارکنوں کی ’بلیک میلنگ‘ کا شکار ہونے پر تیار نہیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/300WR
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خانتصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com/PPI

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی مخالفین کی بد عنوانی، بے اصولی اور اقربا پروری کے خلاف دھرنے دینے والی تحریک انصاف کی قیادت خود اپنی ہی صفوں میں ’مخلص کارکنوں‘ کے دھرنے کے حصار میں آ گئی ہے۔ یہ کارکن اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے والے سیاسی موقع پرستوں کو انتخابی ٹکٹیں دینے کا فیصلہ واپس لیے جانے تک اسلام آباد کے پر فضا علاقے بنی گالہ میں واقع اپنے رہنما کی رہائش گاہ کے سامنے سے اٹھنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ لیکن عمران خان نے بھی واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ اس معاملے میں کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ ان حالات میں کئی پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کا یہ خیال بھی ہے کہ اعلیٰ قیادت کے فیصلوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے حلقہ 67 سے آئے ہوئے ایک کارکن عارف خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حلقے سے تحریک کے دیرینہ نظریاتی کارکن شہزاد خان کو پارٹی ٹکٹ دیا جائے۔ جب تک انہیں ٹکٹ نہیں ملے گا، ہم یہاں سے نہیں اٹھیں گے۔‘‘ اسی طرح پنجاب میں قومی اسمبلی کے حلقہ 154 سے پی ٹی آئی کے کارکن سابق وفاقی وزیر برائے زراعت سکندر بوسن کو ٹکٹ دیے جانے پر سخت نالاں ہیں۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک کارکن جمیل احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم نے احتجاج کا پر امن طریقہ اپنایا ہے، جو ہمیں عمران خان نے ہی سکھایا ہے۔ ہماری پارٹی کا نام تحریک انصاف ہے، اگر پارٹی کارکنان کے ساتھ ہی انصاف نہیں ہو گا، تو ہم کس منہ سے لوگوں کے پاس جائیں گے؟‘‘

قومی اسمبلی کے حلقہ 154 سے پی ٹی آئی کے رہنما احمد حسن دیہڑ نے تین برس پہلے ٹکٹ ملنے کی توقع میں اس جماعت میں شمولیت اختیار کی تھی۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس علاقے میں سکندر بوسن کی ساکھ بہت خراب ہے۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کے دور اقتدار میں مزے لوٹے اور وفاقی وزیر زراعت ہونے کے باوجود کسانوں کے لیے کچھ نہ کیا۔ کئی کسانوں نے خودکشیاں بھی کیں۔ اس فیصلے سے پارٹی کارکنان میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے۔‘‘ احمد حسن دیہڑ کا مزید کہنا تھا، ’’میں نے ہزاروں کی تعداد میں پارٹی کی رکنیت سازی کی۔ عمران خان کے بہت کامیاب جلسے کا انتظام کیا۔ اس حلقے میں کم از کم تینتالیس ہزار ووٹ میرے پاس ہیں۔ اگر مجھے ٹکٹ نہ دیا گیا، تو میں آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑوں گا۔‘‘

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی روایتی سیاست دانوں نے حالیہ مہینوں یا ہفتوں میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے۔ پنجاب کے سابق گورنر غلام مصطفٰے کھر بھی انہی سیاستدانوں میں سے ایک ہیں۔ ان کے حلقے سے پی ٹی آئی کے رہنما شبیر علی قریشی کو نظر انداز کرتے ہوئے پارٹی نے انتخابی ٹکٹ  غلام مصطفٰے کھر کو دے دیا ہے، جس پر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما شبیر علی قریشی نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم تین برسوں سے اس حلقے میں پارٹی کے لیے محنت کر رہے ہیں۔ روایتی سیاست دانوں کو ٹکٹ دینے کے فیصلے سے نوجوان قیادت کو آگے لانے کے دعووں کی نفی ہوتی ہے۔ کئی کارکن اب یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ آیا ’تبدیلی‘ کا نعرہ محض ایک دھوکا تھا۔‘‘

دوسری طرف اسی پارٹی کے ایک رہنما اور سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر چوہدری امیر حسین نے تحریک انصاف کی قیادت کے فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’مجھے بھی پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا۔  لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں دھرنے دینا شروع کر دوں۔ ہمیں پارٹی فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے اور تحریک کی قیادت کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہیے۔‘‘

کئی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بار بار آزمائے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے مہروں کو ٹکٹیں دینے سے پی ٹی آئی کا ’تبدیلی‘ کا نعرہ کمزور پڑا ہے اور پارٹی کارکنوں میں بددلی پھیلی ہے۔ پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں روایتی سیاست دانوں کو پارٹی ٹکٹیں دینے کے بعد تحریک انصاف خاص طور پر ’پنجاب میں انتشار کا شکار‘ نظر آتی ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’یہ کوئی ایک دو حلقوں کی بات نہیں ہے۔ ڈیرہ غازی خان، ملتان، رحیم یار خان، سیالکوٹ، منڈی بہاؤالدین، گجرات، راجن پور اور مظفر گڑھ سمیت کئی علاقوں میں اس پارٹی کو انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے مزاحمت کا سامنا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید