1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں 65 فیصد اضافہ

سلیم شیخ اسلام آباد
19 اپریل 2018

پاکستان میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ڈاکٹر بیماریوں سے نمٹنے کے لیے نہ صرف بے پروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ امراض کی تشخیص کیے بغیر ہی ایسے ڈاکڑی نسخے تجویز کر دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2wJzE
Pakistan Medikamente
تصویر: Imago/UIG

عالمی ماہرین ادویات و صحت نے عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کے رجحان کے بارے میں حال ہی میں شائع ہونے والی تازہ اہم تحقیق میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں سن دو ہزار اور دو ہزار پندرہ کے درمیانی عرصے میں  پینسٹھ فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ پیش رفت لوگوں کی صحت پر منفی اثرات کے حوالے سے انتہائی تشیوناک ہے۔ دنیا کے ستر سے زائد ممالک میں ہونے والی اس نئی تحقیق میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں اضافے کے حوالے سے پاکستان کو چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔
امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی اس نئی تحقیق میں محققین نے خبردار کیا ہے کہ ان ادویات کے غیر محتاط استعمال میں اضافے سے بیماریوں کے خلاف ان ادویات کا اثر کم ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں مختلف بیماریوں کے خلاف اینٹی بائیوٹک ادویات غیر مؤثر ہو رہی ہیں۔ یہ تحقیق حال ہی میں امریکا کی اکیڈمی آف سائنسز کے پروسیڈنگس میں شائع ہوئی ہے۔

اینٹی بائیو ٹیکس کے غلط اور غیر ضروری استعمال کو روکنا ضروری : جرمن چانسلر کی تنبیہ
عالمی سطح پر اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں اس تشویش ناک حد تک اضافے کی وجہ پاکستان، بھارت، بنگلادیش، انڈونیشیا، تھائی لینڈ،مراکش، فلپائن، ویتنام، مصر اور تیونس سمیت کم آمدنی والے ممالک میں ان ادویات کے استعمال میں تیز رفتار اور غیر محتاط طریقے سے ہونے والا اضافہ ہے۔
اس تحقیق پر کام کرنے والے ماہرینِ صحت نے کہا ہے کہ سن  دو ہزار سے  دو ہزار پندرہ کے درمیان پاکستان میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں پینسٹھ فیصد تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ تحقیق کے مطابق سن دو ہزار میں اینٹی بائیوٹک ادویات کا سالانہ استعمال اسی کروڑ تھا، جو اب بڑھ کر  ایک سو تیس کروڑ سالانہ تک پہنچ چکا ہے۔
اس تحقیق پر کام کرنے والے سات تحقیق دانوں کی ایک ٹیم کی سربراہی جانس ہاپکنس اسکول آف میڈیسنز کے اسسٹنٹ پروفیسر ایلی وائی کلائین نے کی ہے۔ ای میل کے ذریعے بھیجے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ڈوئچے ویلے (ڈی ڈبلیو) کو بتایا، ’’تیسری دنیا کے ممالک، خاص کر پاکستان اور بھارت میں ڈاکٹروں کی جانب سے امراض کی تشخیص کیے بغیر مریض کو ادویات تجویز کر دی جاتی ہیں، ڈاکٹروں کی جانب سے بیماریوں سے نمٹنے میں بےپروائی کا مظاہرکرنا، پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی، نکاسی آب کی بہتر سہولیات میں کمی اور  بے ہنگم اربنائیزیشن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ملیریا، ڈینگی ملیریا، دست، خسرہ، ہیپاٹائٹس، آنتوں، پیٹ، سانس، جلد اور خون کی مختلف بیماریاں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں تشویش ناک اضافے کی اہم وجوہات ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ جیسے جیسے مریض ان اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال کرتا جاتا ہے، یہ ادویات غیر موثر ہوتی جاتی ہیں، ’’اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ماہرین مریضوں کو مزید اینٹی بائیوٹک ادویات کے نسخے تجویز کرتے رہتے ہیں، جس سے ملکی سطح پر ان دوائیوں کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘
انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ مریض کی جانب سے اینٹی بائیوٹک ادویات کا  ڈاکٹری نسخوں کے بغیر استعمال بھی ان کے استعمال میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔ پاکستان جیسے دیگر ایشیائی ممالک میں انہیں ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر بھی خریدا جا سکتا ہے۔ اس تحقیق پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹی بائیوٹک کے استعمال میں مسلسل اضافے پر قابو پانے کے لیے ان بیماریوں کے اسباب پر قابو پانا ناگزیر ہے اور اس کے لیے پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب کے انفرا اسٹرکچرکو بہتر بنانے کے لیے مالی و تکنیکی اقدامات کرنا ہوں گے۔

Pakistan Medikamente
تیسری دنیا کے ممالک، خاص کر پاکستان اور بھارت میں ڈاکٹروں کی جانب سے امراض کی تشخیص کیے بغیر مریض کو ادویات تجویز کر دی جاتی ہیںتصویر: Getty Images/D. Berehulak
Pakistan Medikamente
سن دو ہزار میں اینٹی بائیوٹک ادویات کا سالانہ استعمال اسی کروڑ تھا، جو اب بڑھ کر  ایک سو تیس کروڑ سالانہ تک پہنچ چکا ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

’ناقابل علاج بیکٹیریا ایک عالمی وبا بن سکتا ہے‘
تحقیقی ٹیم کے سربراہ اسسٹنٹ پروفیسر ایلی وائی کلائین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’غیر پائیدار اور بے ہنگم اربنائیزیشن کو ماحول دوست بنا کر صحت کی مختلف وبائی و غیر وبائی بیماریوں سے لوگوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ان بیماریوں کے خلاف لوگوں میں استعمال ہونے والی اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں بڑی حد تک کمی کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘‘
اقوامِ متحدہ کے صحت پر کام کرنے والے ذیلی ادارے ڈبلیو ایچ او کے جنیوا میں واقع سربراہ دفتر میں اینٹی بائیوٹک ادویات کی مختلف بیماریوں کے خلاف مزاحمتی اثرات پر تحقیق کرنے کے حوالے سے قائم اہم شعبے میں ڈاکٹر سارہ پا ؤلن ٹیکنیکل افسر ہیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) اور ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) اور ایک بین الاقوامی تنظیم برائے اینیمل ہیلتھ کے ساتھ مل کر ایک اہم فریم ورک کی تیاری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس سے اینٹی بائیوٹک ادویات کے بیماریوں کے خلاف غیر مؤثر ہونے والے عمل پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل قریب میں عالمی سطح پر روشناس ہونے والے اس عالمی فریم ورک برائے اینٹی بائیوٹک ریزسسٹنٹ کا خاص مقصد ان ادویات کے اثر کو برقرار رکھنا ہے۔

تعویز گنڈے اور اینٹی بائیوٹکس ساتھ ساتھ
ایک ای میل کے ذریعے جواب میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کی ٹیکنیکل افسر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان، بھارت، فلپائن، تھائی لینڈ، ویتنام اور انڈونیشا سمیت مختلف نچلی اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو اینٹی بائیوٹک ادویات کے تجویز کردہ ڈاکٹری نسخوں کے عمل کو قانون سازی کے ذریعے درست کرنا ہوگا۔ امراض کے اسباب، خاص کر صاف پانی اور صفائی کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے لازمی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے علاوہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال اور ان کے منفی اثرات کے حوالے سے بڑے پیمانے پر عوامی آگاہی پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔‘‘