1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان سے افغان شہریوں کی جبری واپسی، ضرورت یا مصلحت؟

مقبول ملک18 فروری 2015

پاکستانی حکام کے بقول ہزاروں کی تعداد میں افغان شہریوں کو واپس ان کے وطن بھیجنے کی وجہ عسکریت پسندوں کے خاتمے کی پاکستانی کوششیں ہیں۔ لیکن چند تجزیہ نگاروں کے مطابق ان افغان باشندوں کو ’قربانی کا بکرا‘ بنایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Edj8
پاکستان میں افغان باشندے بڑی تعداد میں اہنے کاروبار کرتے ہیںتصویر: DW/D. Baber

اس موضوع پر نیوز ایجنسی روئٹرز نے اسلام آباد سے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ سرکاری طور پر تو پاکستانی حکام یہ کہتے ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں افغان تارکین وطن کو اس لیے واپس اپنے ملک چلے جانے کا حکم دیا گیا ہے کہ پاکستان سے عسکریت پسندی کے خاتمے کی کوششوں کو کامیاب بنایا جا سکے۔ تاہم متعدد ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان افغان باشندوں کو اس لیے ’قربانی کا بکرا‘ بنایا جا رہا ہے کہ اس بات سے توجہ ہٹائی جا سکے کہ پاکستانی حکام ملک میں جاری تشدد اور خونریزی کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اب تک پاکستان میں مقیم ہزاروں افغان شہریوں کو اپنے خلاف بڑھتے ہوئے جبر اور گرفتار کیے جانے کی دھمکیوں کے نتیجے میں اس طرح پاکستان سے رخصت ہونا پڑا ہے کہ انہیں اپنے گھر، دکانیں اور دیگر کاروبار یکدم اپنے پیچھے ہی چھوڑ دینا پڑے۔

Afghanistan Flüchtlinge Flüchtlingslager
پشاور کے جلوزئی مہاجر کیمپ میں افغان بچے، فائل فوٹوتصویر: AP

پشاور میں گزشتہ برس سولہ دسمبر کو آرمی پبلک اسکول پر پاکستانی طالبان کے خونریز حملے میں ڈیڑھ سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے چند ہی گھنٹوں بعد پاکستانی حکام نے نہ صرف اس دہشت گردی کے سلسلے میں افغانستان کی طرف انگلی اٹھانا شروع کر دی تھی بلکہ اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ ملک میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔ اسلام آباد میں حکام کے مطابق عسکریت پسندوں کو ان غیر قانونی تارکین وطن کی آڑ میں پناہ لینے کا موقع مل جاتا ہے۔

دسمبر کے وسط میں اس کریک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سے اب تک ہزاروں افغان باشندے پاکستان سے رخصت ہو چکے ہیں اور درہء خیبر کے راستے طورخم کی پاک افغان سرحد کا رخ کرنے والے ان افغانوں کی طویل قطاریں دیکھی گئیں۔ یہ افغان باشندے گاڑیوں اور ٹرکوں پر اپنی وہ بہت سی منقولہ املاک لادے ہوئے تھے، جو وہ ساتھ لے جا سکتے تھے۔ اس وقت پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایسے مزید بہت سے افغان شہری واپس اپنے وطن جانے کی تیاریوں میں ہیں۔

پشاور میں کپڑے کا کاروبار کرنے والے ایک افغان تاجر شاکراللہ سباوون نے اپنی وطن واپسی کی تیاریاں کرتے ہوئے روئٹرز کے ساتھ گفتگو میں اپنے حالات کی تصویر کشی اس طرح سے کی: ’’پاکستان ہمارا دوسرا گھر ہے۔ ہم نے یہاں مختلف طرح کے کاروبار کیے اور ان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ لیکن پولیس ہمیں کہہ رہی ہے کہ ہم اپنے کاروبار بند کر کے پاکستان سے چلے جائیں۔‘‘

شاکراللہ نے کہا کہ افغان تارکین وطن کی برادری سے تعلق رکھنے والے اس کی طرح کے بہت سے دیگر افراد اپنی دکانوں کو دیکھنے کے لیے مارکیٹوں میں جانے سے اس لیے گھبراتے ہیں کہ انہیں خطرہ ہوتا ہے کہ وہ گرفتار کر لیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم نے اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ ہم پاکستان چھوڑ کر اپنے کاروبار افغانستان منتقل کر دیں گے لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔‘‘

Afghanistan Flüchtlinge an der Grenze zu Pakistan
طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی افغان شہریوں نے بڑی تعداد میں پاکستان کا رخ کیا تھا، فائل فوٹوتصویر: AP

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی جنوبی ایشیا کے لیے پروجیکٹ ڈائریکٹرثمینہ احمد کہتی ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ چند طالبان شدت پسند پناہ کے لیے چپکے سے افغان مہاجرین کی برادریوں میں شامل ہو چکے ہوں لیکن مجموعی طور پر پاکستانی حکام ان افغان مہاجرین کو ’قربانی کا بکرا‘ بنا رہے ہیں۔ ثمینہ احمد نے روئٹرز کو بتایا، ’’ان مہاجرین کا استحصال کرنا بہت آسان ہے۔ ان کے پاس اپنے تحفظ کے لیے کوئی قانونی ڈھانچہ نہیں ہے۔ افغان مہاجرین کو ٹارگٹ بنانا توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔‘‘

پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی تعداد تین ملین سے زائد ہے۔ ان کی اکثریت 70 اور 80 کی دہائیوں میں افغانستان پر سوویت قبضے کے سالوں میں پاکستان آئی تھی۔ پھر جب وہاں طالبان کی حکومت اقتدار میں آئی تو بھی نئے سرے سے ہزار ہا افغانوں نے پاکستان کا رخ کیا تھا۔ ان افغانوں میں سے بہت سے پاکستان میں اپنی رجسٹریشن سے متعلق باقاعدہ قانونی دستاویزات کے حامل ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جن کی پاکستان میں موجودگی کا کوئی سرکاری ریکارڈ نہیں ہے اور اسی لیے وہ پولیس کارروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت IOM کے مطابق صرف اس سال جنوری کے مہینے میں 22 ہزار سے زائد غیر رجسٹرشدہ افغان شہری طورخم کے راستے واپس اپنے وطن چلے گئے۔ یہ تعداد 2014ء کے دوران پاکستان سے واپس اپنے ملک جانے والے افغان شہریوں کی سالانہ تعداد کے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ مہینے پاکستانی حکام نے قریب ڈیڑھ ہزار افغان شہریوں کو ملک بدر کر کے واپس افغانستان بھیج دیا۔