1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں بڑھتی ہوئی پھانسیوں پر یورپی تشویش

شکور رحیم، اسلام آباد11 جون 2015

یورپی یونین نے پاکستان میں سزائے موت پر عملدرآمد کی بڑھتی ہوئی شرح پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں سزائے موت دیے جانے پر دوبارہ پابندی لگائی جائے۔

https://p.dw.com/p/1Ffi7
تصویر: picture-alliance/dpa

آج جمعرات گیارہ جون کے روز اسلام آباد میں یورپی یونین کے پاکستان میں قائم مشن کے جاری کردہ ایک بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان سزائے موت پر پابندی عائد کر کے اپنی بین الاقوامی ذمے داریوں اور وعدوں کو پورا کرے۔

وفاقی دارالحکومت میں یورپی یونین کے مشن کی خاتون ترجمان کیتھرین رے نے کہا، ’’پاکستان کے لیے یورپی یونین کی طرف سے ترجیحی تجارت (جی ایس پی) کاد رجہ بین الاقوامی کنونشنوں کے مؤثر نفاذ سے مشروط ہے۔‘‘

ترجمان کے مطابق پاکستان میں 2008ء سے سزائے موت پر عائد پابندی اٹھائے جانے کے بعد دسمبر 2014ء سے اب تک 150 افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سزائے موت پر یہ بڑھتا ہوا عملدرآمد پاکستان میں انسانی حقوق کے ریکارڈ میں تنزلی کو ظاہر کرتا ہے۔

یورپی یونین کے مشن کی ترجمان نے آفتاب بہادر نامی مسیحی شہری کی پھانسی دیے جانے پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کی اس درخواست کو بھی مطلوبہ توجہ نہیں دی گئی جس کے مطابق وہ جرم کرتے وقت نابالغ تھا اور جرم کا اعتراف کروانے کے لیے اس پر تشدد بھی کیا گیا تھا۔

بیان کے مطابق پاکستانی سپریم کورٹ نے سزائے موت کے منتظر قیدی شفقت حسین کی اپیل بھی مسترد کردی ہے اور ہو سکتا ہے کہ ارتکاب جرم کے وقت وہ بھی کم عمر ہی تھا۔

کیتھرین رے نے کہا کہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت پاکستان کی ذمے داری ہے کہ وہ اٹھارہ سال سے کم عمر میں کیے گئے جرائم پر کسی بھی مجرم کو پھانسی نہ دے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مقدمات میں جہاں اس بات کے معقول شواہد موجود ہوں کہ ملزمان سے اعتراف جرم کرانے کے لیے تشدد کیا گیا تھا، وہاں فوری اور غیر جانبدارانہ تفتیش کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردانہ حملے میں ڈیڑھ سو طالب علموں اور اساتذہ کی ہلاکت کے بعد پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے ملک میں مجرموں کو پھانسی کی سزا دیے جانے پر عائد پابندی کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا۔ ابتدا میں کہا گیا تھا کہ صرف خطرناک دہشت گردوں کو سنائی گئی سزائے موت پر سے پابندی ہٹائی گئی ہے تاہم بعد میں اس فیصلے کو دیگر مقدمات پر بھی لاگو کر دیا گیا تھا۔

Symbolbild Pakistan EU
تصویر: DW

اس دوران انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے آفتاب بہادر مسیح اور شفقت حسین جیسے مجرموں کو پھانسی دیے جانے کی یہ کہہ کر مخالفت شروع کی دی تھی کہ دونوں مجرم ارتکابِ جرم کے وقت قانوناﹰ نابالغ تھے۔ آفتاب بہادر کو ایک روز قبل لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ دوسری جانب شفقت حسین کے وکیل بھی ارتکاب جرم کے وقت شفقت کی کم عمری ثابت نہ کر سکے اور سپریم کورٹ نے بدھ دس جون کے روز دوسری مرتبہ بھی شفقت حسین کی سزائے موت ختم کرنے سے متعلق اپیل مسترد کر دی۔

اس سماعت کے دوران غیرملکی خصوصاﹰ یورپی یونین کے سفارت کاروں کی بڑی تعداد بھی کمرہء عدات میں موجود تھی۔ اس سے قبل انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج کے سبب اس مجرم کی عمر کا تعین کرنے کے لیے شفقت حسین کی پھانسی چار مرتبہ ملتوی کی جا چکی ہے۔ اب لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ شفقت حسین کی پھانسی یقینی ہو گئی ہے۔

یورپی یونین کی ترجمان کے مطابق، ’’یورپی یونین تمام مقدمات میں سزائے موت کے خلاف ہے اور دنیا بھر سے اس کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہے۔‘‘ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں پھانسی کی سزا پر سے پابندی اٹھائے جانے کے وقت جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستانی جیلوں میں سزائے موت کے منتظر آٹھ ہزار قیدی موجود ہیں۔

خیال رہے کہ یورپی یونین نے دسمبر 2013ء میں پاکستان کو ترجیحی بنیادوں پر تجارت کے لیے جی ایس پی پلس کا درجہ دیا تھا، جس کے بعد پاکستانی مصنوعات کی یورپی منڈیوں میں رسائی بڑھی تھی اور یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں پاکستان سے درآمدات کے حجم میں قابل ذکر اضافہ ہوا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین نے ابتدائی طور پر سنگین نوعیت کے مقدمات میں دہشت گردوں کو پھانسی دیے جانے کے اعلان پر کوئی بڑا رد عمل ظاہر نہیں کیا تھا تاہم اب دیگر جرائم میں ملوث مجرموں کو لگاتار دی جانے والی پھانسیوں پر یونین نے کھل کر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔