1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں تحفظ اطفال: مسودہ قانون اور سماجی بحث

18 فروری 2010

پاکستان میں سماجی بہبود کی وفاقی وزارت نے ’’ تحفظ اطفال بل 2009ء‘‘کا مسودہ تیار کرنے کے بعد اسے اسلامی قوانین اور ملکی ثقافت سے ہم آہنگ کرنے کےلئے مختلف حلقوں سے آراء اور تجاویز اکھٹی کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

https://p.dw.com/p/M4K9
تصویر: picture alliance / landov

اس حوالے سے اسلام آباد میں قائم سرکاری ادارے اسلامی نظریاتی کاونسل کے زیر اہتمام ایک گول میز کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس میں پیش کیا گیا تحفظ اطفال کا مجوزہ بل 2009ء تعزیرات پاکستان اور فوجداری قوانین میں مزید ترامیم پر مشتمل ہے۔ اس بل کے نمایاں خدوخال میں کسی بچے کو مجرم ٹھہرانے کےلئے عمر کی حد 7 سے بڑھا کر 12 سال کرنے کی تجویز شامل ہے جبکہ بچوں سے جنسی زیادتی کے مرتکب افراد کےلئے عمر قید اور کم از کم ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے۔

مجوزہ بل میں بچوں کو جسمانی سزا سے تحفظ مہیا کرنے کے علاوہ جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان کی عریاں نگاری کے مرتکب افراد کو 5 سے 7سال قید اور جرمانہ عائد کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ تاہم اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر خالد مسعود کے مطابق گول میز کانفرنس کے شرکاءکی اکثریت نے بچوں کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کی سزاؤں میں اضافے کے علاوہ مجوزہ بل کے نام کی تبدیلی پر زور دیا ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود کے بقول: ’’ عام طور پر کہا جا رہا ہے کہ یہ بل تحفظ اطفال کے بارے میں ہے چونکہ یہ تحفظ اطفال سے زیادہ تعزیرات پاکستان کی کچھ دفعات میں ترمیم کا بل ہے اس لئے اس کو ترمیمی بل کہا جائے تو بہتر ہو گا کیونکہ اس کی شکل بھی وہی ہے۔‘‘

کانفرنس میں شریک انسانی حقوق کی سرگرم کارکن طاہرہ عبداللہ نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ بل کو عجلت میں تیار کر کے بچوں کے تحفظ سے متعلق بنیادی باتوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

Pakistan Parlament Nationalversammlung in Islamabad
حکومت تحفظ اطفال کا ایک جامع بل جلد پارلیمان میں پیش کرے گی، ڈاکٹر عذرا افضلتصویر: Abdul Sabooh

طاہرہ عبداللہ نے کہا کہ :’’اس بل میں سن بلوغت کی عمر 7 سال سے بڑھا کر 12 سال کر دی گئی ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ اس عمر کی حد کو 18 سال ہونا چاہئے کیونکہ جب ہمیں18 سال کی عمر میں شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور انتخابات میں حصہ لینے کےلئے ووٹر لسٹ میں ہمارا نام شامل ہوتا ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ ہر چیز کےلئے 18 سال سے کم عمر بلوغت کی نہیں ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ اس میں بچوں اور بچیوں کی تخصیص نہیں کی گئی، اصطلاحات کی صحیح طرح سے تعریف اور تشریح نہیں کی گئی جو کہ بہت ضروری ہے۔“

اس کانفرنس میں حکومت کی نمائندگی کرنے والی پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عذرا فضل نے ڈؤئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بچوں کے حقوق سے متعلق الگ سے ایک جامع بل جلد ہی منظوری کےلئے پارلیمان میں لائے گی۔ عذرا فضل کے مطابق : ’’حقوق اطفال کا بل اقوام متحدہ کے چارٹر کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے اس میں بہت ساری شقیں وہیں سے لی گئی ہیں لیکن اب انہیں پاکستانی ثقافت سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ حقوق اطفال کا بل ایک جامع بل ہے اس میں بہت سارے معاملات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ یہ بل بھی کمیٹی کی سطح پر ہے جہاں اس پر بحث ہو رہی ہے اس کے بعد انشاءاللہ ہم اسے پارلیمنٹ میں لائیں گے۔“

خیال رہے کہ پاکستان بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے 1990ءکے چارٹر کا دستخط کنندہ ہے تاہم دو عشرے گزر جانے کے باوجود ابھی تک نہ صرف بچوں کے حقوق کے متعلق مؤثر قانون سازی کا فقدان ہے بلکہ ملک کے مختلف حصوں میں بچوں پر تشدد کے واقعات بھی عام ہیں۔

رپورٹ : شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: شادی خان سیف