1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں فرقہ واریت اور سعودی عرب پر تنقید

امتیاز احمد21 فروری 2015

پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے انتہائی قریبی دوست ملک ہیں لیکن جب سے پاکستان نے دہشت گردی کی وجوہات کو ختم کرنے کا علان کیا ہے سعودی عرب پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1EfP3
Madrassa Pakistan
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

پاکستان میں ایسا شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ سعودی عرب جیسے امیر اور دوست ملک پر کبھی تنقید کی گئی ہو۔ دونوں ملکوں کی زیادہ تر آبادی سُنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ دونوں ملک اسلامی مذہبی تعلقات کے ذریعے ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں جبکہ تیل کی دولت سے مالا مال ملک پاکستانی فوج کی مالی امداد بھی کرتا ہے۔

پشاور حملے کے بعد سے حکومت پاکستان عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے اور ملکی مدرسوں کو سختی سے کنٹرول کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب ملکی میڈیا اور حکومتی وزراء نے بھی یہ سوال اٹھانے شروع کر دیے ہیں کہ آیا دینی مدارس کو سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی مالی معاونت ملک میں انتہا پسندی میں اضافے کا سبب بن رہی ہے ؟

گزشتہ ہفتے پاکستان میں سعودی سفارت خانے کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق تمام دینی مدارس کو چندہ حکومت کی اجازت کے بعد ہی دیا جاتا ہے۔ اس سے قبل ایک پاکستانی وزیر نے ریاض حکومت پر مسلم دنیا میں عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔

پاکستانی وزارت خارجہ نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ نجی افراد کی طرف سے ’غیر رسمی چینلز‘ کے ذریعے ہونے والی فنڈنگ کی بھی چھان بین کی جائے گی تاکہ دہشت گرد گروپوں کو ملنے والی مالی امداد کا راستہ روکا جا سکے۔ اس حکومتی بیان میں سعودی عرب کا نام لینے سے گریز کیا گیا تھا لیکن اس کی تشریح ایسے ہی کی جا رہی ہے کہ اشارہ سعودی عرب کی طرف تھا۔

مدارس کی مالی امداد کے علاوہ بھی حالیہ چند مہینوں میں سعودی عرب کے شاہی خاندان پر تنقید دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی وجہ وہ اجازت نامہ بنا، جو سعودی شاہی افراد کو پاکستان میں نایاب پرندوں کے شکار کے لیے دیا گیا تھا۔ پاکستان کے ماہنامہ ہیرالڈ میگزین کے ایڈیٹر بدر عالم کے مطابق سعودی عرب پر حالیہ تنقید کی لہر بے مثال ہے، ’’سعودی عرب کے پاکستان میں وسیع تجارتی اور اقتصادی مفادات ہیں۔ اب اس رشتے پر کُھلے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی کسی نے اس انداز میں سوال نہیں پوچھا تھا۔ اب تو اردو میڈیا بھی سوال پوچھ رہا ہے۔‘‘

سعودی عرب کے ڈونرز پر طویل عرصے سے یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ خاموشی کے ساتھ سخت گیر اور عسکری سنی گروپوں کی مالی امداد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماضی میں منظر عام پر آنے والی خفیہ دستاویزات کے مطابق سن 2009ء میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا تھا، ’’سعودی عرب دنیا بھر میں سُنی دہشت گرد گروپوں کو مالی امداد فراہم کرنے والا اہم ذریعہ ہے۔‘‘ اس خفیہ دستاویز میں کہا گیا تھا کہ مختلف چینلز کے ذریعے طالبان، القاعدہ اور پاکستان میں لشکر جھنگوی جیسے فرقہ ورانہ سنی گروپوں کو مالی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

’پالیسی تبدیل نہیں ہوگی‘

تجزیہ کار اس فنڈنگ کو علاقے میں شعیہ ملک ایران کا مقابلہ کرنے سے جوڑتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے سابق خارجہ سیکریٹری اور سفیر نجم الدین شیخ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب پر تنقید کی دروازے پشاور اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد کھلے ہیں، ’’پشاور حملے کے بعد یہ تاثر ابھر کر سامنے آیا ہے کہ ملک میں کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کو بیرونی ملک مالی مدد فراہم کر رہے ہیں۔‘‘ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیرونی مالی امداد کے ساتھ ساتھ حکومت کو دینی مدارس کو مقامی سطح پر ملنے والے فنڈز پر بھی کنٹرول حاصل کرنا ہوگا، ’’ابھی تک پاکستان میں ہی ان گروپوں کی بلا روک ٹوک مالی امداد جاری ہے۔ اگر آپ بیرونی ملکوں سے کچھ چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو اپنے گھر پر کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

ایک سینئر حکومتی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اتفاق کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ خود کو قدامت پسند بنانے کے لیے ہمیں سعودی عرب کی ضرورت نہیں ہے، ہم خود ہی یہ سلسلہ تیزی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ اس اہلکار کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال ریاض حکومت کے لیے شاید مشکل ہو سکتی ہے لیکن دونوں ملکوں کے لیے طویل المدتی تعلقات اہم بھی ہیں اور فائدہ مند بھی۔ ان کا کہنا تھا، ’’ پالیسی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ نواز حکومت اور فوج دونوں ہی سعودیوں کے ساتھ آن بورڈ ہیں۔ اور ایسا لگتا بھی نہیں کہ موجودہ پالیسی تبدیل ہو گی۔‘‘