1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کی خاندانی سیاسی بادشاہتیں

عبدالستار، اسلام آباد
20 جون 2018

پاکستان میں جولائی کے عام انتخابات کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزد کردہ امیدواروں کی حتمی فہرست نے ثابت کر دیا ہے کہ اس ملک میں خاندانی بنیادوں پر سیاسی بادشاہتوں کے خاتمے کے تاحال کوئی آثار نظر نہیں آتے۔

https://p.dw.com/p/2zusc
Pakistan ehemaliger Staatsoberhaupt Asif Ali Zardaris Rückkehr
تصویر: DW/R. Saeed

اس حوالے سے جہاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے زرداری، نواز اور بھٹو گھرانوں کے کئی افراد کو انتخابی ٹکٹ جاری کیے ہیں، وہیں پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے صوبوں میں بھی زیادہ تر سیاسی گھرانے ہی انتخابی منظر پر چھائے رہیں گے۔ تاہم ایم کیو ایم ، عوامی ورکرز پارٹی اور چند دیگر چھوٹی جماعتوں نے خاندانی سیاست دانوں کے بجائے کارکنان کو ترجیح دی ہے۔

سندھ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ذوالفقار راجپر کے مطابق آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے اس دوسرے سب سے بڑے صوبے میں تقریباﹰ تمام جماعتوں نے سیاسی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو الیکشن میں اپنے امیدوار بنایا ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سندھ کے کچھ شہری علاقوں میں یہ رجحان مختلف دکھائی دیتا ہے۔ راجپر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سندھ کی سیاست پر جاگیرداروں کا قبضہ ہے، جن کے خاندان صوبے کے طول و عرض پر چھائے ہوئے ہیں۔ داود میں جتوئی اور پیر مظہر کے گھرانے، جیکب آباد، کندھ کوٹ اور کشمور میں جاکھرانی، بجارانی اور مہر، گھوٹکی میں علی محمد مہر کا گھرانہ، ہالا میں مخدوم فیملی، سانگھڑ میں پیر پگارا، ٹھٹھہ اور بدین میں شیرازی اور مرزا کے گھرانے، تھر میں ارباب اور سید گھرانے، خیر پورمیں سید اور وسان خاندان، شکارپور میں مہر اور دارنی قبیلے سے تعلق رکھنے والے طاقتور گھرانے اور نواب شاہ میں زرداری قبیلہ۔  قصہ مختصر یہ کہ سندھ کے چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر ہر جگہ آپ کو سیاسی گھرانے ہی ملیں گے، جنہوں نے اپنی اپنی سیاسی بادشاہتیں قائم کر رکھی ہیں۔‘‘

Nawaz Sharif Rede in Lahore
تصویر: picture alliance/AP Photo

یہ رجحان صرف سندھ کے جاگیرداروں اور زمین داروں تک ہی محدود نہیں ہے۔ پنجاب سے سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ ایک سرمایہ دار ہیں، وہاں بھی صورت حال یہی ہے۔ صوبہ پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے احسن رضا کے خیال میں جنوبی پنجاب میں تو مکمل طور پر سیاسی گھرانوں نے ہی اپنی بادشاہتیں قائم کر رکھی ہیں لیکن وسطی اور شمالی پنجاب میں بھی صورت حال کچھ زیادہ امید افزا نہیں ہے۔ احسن رضا کے مطابق، ’’جنوبی پنجاب کے تقریباﹰ تمام علاقوں میں سیاسی خاندانوں ہی کا راج ہے، جن کے کچھ افراد کسی ایک اور کچھ کسی دوسری یا تیسری سیاسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں لغاری، کھوسہ، دریشک اور قیصرانی، ملتان میں گیلانی، مخدوم اور بوسن، راجن پور میں گورچانی اور مزاری، مظفر گڑھ میں کھر، جتوئی، قریشی اور دستی، رحیم یار خان میں کوریجہ، مخدوم اور وڑائچ، بہاولپور میں عباسی، واران اور چیمہ، لودھراں میں کانجو، ترین اور بلوچ، خانیوال میں سید اور ہراج ، جھنگ میں مخدوم، سید اور بھروانہ، بھکر میں شاہانی، نوانی، ڈھانڈلا اور میانوالی میں نیازی اور شادی خیل کئی  دہائیوں سے سیاسی افق پر چھائے ہوئے ہیں۔‘‘

کیا پنجاب کے دیگر علاقوں میں صورتحال مختلف ہے؟

کیا پنجاب کے دیگر علاقوں میں صورتحال مختلف ہے؟ اس سوال کے جواب میں احسن رضا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وسطی پنجاب کے بھی کئی علاقے پیروں کے سیاسی تسلط میں ہیں جیسے کہ سرگودھا میں پیر سیالوی جب کہ خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، خواجہ آصف سمیت کئی دوسرے سیاست دانوں کے گھرانے جنرل ضیا کے دور سے سیاسی افق پر نظر آ رہے ہیں اور ان انتخابات میں بھی یہ لوگ اپنے گھرانوں کے دیگر افراد کے ساتھ آپ کو نظر آئیں گے۔‘‘

پاکستان میں بعض سیاست دان اس خاندانی سیاسی بادشاہتوں کی روایت کی حمایت کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ پی پی پی کے رہنما تاج حیدر کے خیال میں اگر سیاسی خاندانوں نے پارٹی کے لیے قربانیاں دی ہیں، تو لوگ انہی کو ووٹ دیں گے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ نہ بھولیں کہ پی پی پی سے وابستہ گھرانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تھے۔ ان گھرانوں نے آمریت کے خلاف لڑائی کی، جس کی وجہ سے لوگوں میں ان کے لیے حمایت پائی جاتی ہے۔ آپ کو انتخابات میں ووٹروں کا رجحان بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ اگر لوگ انہیں ووٹ دینا چاہتے ہیں، تو ایسے گھرانوں کے افراد کو پارٹی ٹکٹ کیوں نہ دیے جائیں؟‘‘

’پہلے بھٹو، پھر اس کی بیٹی، پھر داماد اور پھر داماد کے بچے اور رشتے دارسیاست کو اپنا وراثتی حق سمجھتے ہیں‘تصویر: DW/T. Shahzad

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ سیاسی گھرانوں کو پارٹی ٹکٹ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ الیکشن ٹکٹ میرٹ پر دیے جانا چاہییں۔ مریم نواز اور حمزہ شہباز کو ٹکٹ میرٹ پر دیے گئے۔ اگر ن لیگ میں موروثی سیاست ہوتی، تو حسین نواز اور حسن نواز بھی پارٹی کے رہنما ہوتے۔ سیاسی گھرانوں کے افراد کی سیاسی تربیت بہتر ہوتی ہے۔ اسی لیے لوگ ان کو ووٹ بھی دیتے ہیں۔ ہمارا (مسلم لیگ ن) کا پیپلز پارٹی سے موازنہ درست نہیں، جہاں پہلے بھٹو، پھر اس کی بیٹی، پھر داماد اور پھر داماد کے بچے اور رشتے دارسیاست کو اپنا وراثتی حق سمجھتے ہیں۔‘‘

کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اندرون سندھ سے جاگیردار اس لیے جیت جاتے ہیں کہ وہاں کوئی مڈل کلاس موجود ہی نہیں ہے۔ معروف سیاسی مبصر ڈاکٹر توصیف احمد نے اس معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پنجاب میں صورت حال انیس سو ستر کے انتخابات میں مختلف تھی، جب ڈاکٹر مبشر حسن، شیخ رشید، ملک معراج خالد اور اسلم گرداسپوری سمیت کئی مڈل کلاس امیدوار انتخابات جیتے تھے۔‘‘

ڈاکٹر توصیف احمد کے خیال میں ان خاندانی سیاسی بادشاہتوں کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اگر پاکستان میں جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارا نہ جاتا، تواب تک نئی قیادت ابھر چکی ہوتی۔ آج بھی اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کے پیچھے لگی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے روایتی سیاست دانوں کو ٹکٹ دیے ہیں۔‘‘

معروف مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی سیاست دانوں کو بھی اس صورت حال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس موضوع پر اظہار رائے کرتے ہوئے انہوں نے ایک انٹرویو میں ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سرمایہ دار کا طرز سیاست بھی جاگیردارانہ ہے۔ آپ نواز شریف کو ہی دیکھ لیں، انہوں نے بھی عام انتخابات میں سیاسی خاندانوں کے افراد ہی کو امیدوار نامزد کیا ہے۔‘‘

خطے کی سیاسی تاریخ میں سیاسی خاندانوں کے اثر و رسوخ کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر مبارک علی نے کہا، ’’اثر و رسوخ والے خاندان نو آبادتی دور میں پیدا ہوئے کیونکہ مغلوں کے دور میں زمین ریاست کی ملکیت ہوتی تھی۔ انگریزوں نے تحصیلدار، نمبردار، جاگیردار اور زمیندار پیدا کیے، جن میں سے کچھ کو عدالتی اور انتظامی اختیارات بھی دیے گئے، جس کی وجہ سے وہ عوام کی نظروں میں اہم ہو گئے۔ تقسیم ہند سے پہلے پنجاب میں یہی جاگیردار یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے اور بعد میں مسلم لیگ میں۔ لیکن ابتدائی عشروں میں بھی سیاسی خاندان بہت زیادہ نہیں ہوتے تھے۔ لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور چوہدری محمد علی اپنے خاندانوں کو سیاست میں نہیں لائے تھے۔ یہ کام بھٹو نے شروع کیا اور بعد میں نواز شریف بھی اپنا خاندان سیاست میں لے آئے۔ یہ سیاسی کلچر اس وقت تک تبدیل نہیں ہو گا جب تک سیاسی رہنما اپنے کارکنوں کے ساتھ مزارعوں جیسا سلوک بند نہیں کر دیتے۔‘‘

سیاسی مبصرین کے خیال میں صرف سندھ اور پنجاب میں ہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی بڑے سیاسی خاندان جولائی میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات اور ان کے نتائج پر چھائے رہیں گے۔ بلوچستان میں اچکزئی
گھرانے کے علاوہ مینگل، بگٹی، مری، جمالی، بھوٹانی، بزنجو، جام، مگسی، رئیسانی اور حسنی انتخابی دنگل میں نمایاں ہوں گے جبکہ خیبر پختونخوا میں والی سوات کا خاندان، ولی خان کا گھرانہ، ہوتی، بلور، شیرپاؤ، فضل الرحمٰن اور گنڈاپور خاندان سیاسی افق پر غالب رہیں گے۔