1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

'پاکستان کی ہندو عورتیں جبری طور پر مذہب کی تبدیلی سے محفوظ‘

بینش جاوید، روئٹرز
12 اپریل 2017

سپنا گوبیا اپنی شادی کی تیاری میں مصروف ہے۔ چند ہفتوں میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ  مقدس پھیرے لگائے گی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ سپنا کی شادی کو پاکستان کی حکومت باقاعدہ اپنے ریکارڈ میں درج کرے گی۔

https://p.dw.com/p/2b8Pn
Pakistan Now, Book launching by a German photographer Manolo Ty
تصویر: Manolo Ty

جنوبی پاکستان کے صوبے سندھ کی رہائشی گوبیا پاکستان کی ان لاکھوں ہندو خواتین میں سے ایک ہے جنہیں اب ہندو میرج ایکٹ کے تحت شادی کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کا حق ہے۔ پچیس سالہ گوبیا نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ کنواری اور شادی شدہ ہندو خواتین تبدیلی مذہب کے لیے اغوا یا زبردستی کسی اور مذہب کے ماننے والے کے ساتھ شادی کرنے کے خوف تلے دبی ہوئی تھیں۔‘‘  گوبیا توقع کرتی ہے کہ اس قانون کے باعث اب ہندو عورتوں کے اغوا اور جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کے واقعات میں کمی آئے گی۔ گوبیا کے لیے یہ بات بھی باعث تسلی ہے کہ اس قانون کے تحت دوسری شادی کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

پاکستان کے قیام کے بعد سے ملک کے لگ بھگ 3 ملین ہندوؤں کو اپنی شادیوں کو حکومت کے پاس درج کرانے کا حق نہیں تھا۔ اس سال 19 مارچ کو ہندو میرج ایکٹ کو منظور کروانے میں وکیل ارجن داس نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ ارجن نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ہماری شادی شدہ بیٹیاں اور بہنیں اثر و رسوخ رکھنے والے مقامی افراد کی جانب سے اغوا کی گئی ہیں اور انہیں زبردستی مسلمان کیا گیا ہے اور انہیں زبردستی اغواکاروں کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کیا گیا ۔‘‘

Pakistan Hyderabad - Aktivistin Veero Kohli im Gespräch mit AP
پاکستان کے قیام کے بعد سے ملک کے لگ بھگ 3 ملین ہندوؤں کو اپنی شادیوں کو حکومت کے پاس درج کرانے کا حق نہیں تھاتصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash

ایسے ہی ایک ظلم کا شکار سولہ سالہ انجلی کماری بھی ہوئی تھی جسے تین برس قبل سندھ کے علاقے ڈھیرکی سے دن دیہاڑے اس کے گھر سے اٹھا لیا گیا تھا اور اسی دن اسے زبردستی مسلمان کر دیا گیا تھا۔ عدالت میں مقدمہ چلنے کے باوجود اس کے والدین انجلی کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

حکومت کے مطابق پاکستان کے تاریخی ہندو میرج ایکٹ کا مقصد ہندو برادری کی خواتین اور بچیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف زاہد حامد نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا،’’ ملک کے مختلف علاقوں میں شادی رجسٹرار تعینات کیے جائیں گے۔ انہیں ہندو شادیوں کو رجسٹر کرنے، سرٹیفیکیٹ جاری کرنے اور شادیوں کا ریکارڈ محفوظ رکھنے کے اختیارات دیے جائیں گے۔‘‘

پاکستان ہندو کونسل کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر رامیشن کمار وانکوانی کو خدشہ ہےکہ اس قانون پر عمل درآمد حکومت کی جانب سے سخت اقدامات اٹھانے سے ہی ممکن ہو گا۔ انہوں نے کہا،’’یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی اقلیتوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرے۔‘‘

ہائی کورٹ کے وکیل ناند لال لاوھا کا کہنا ہے کہ اس قانون کے بارے میں وکیلوں، پولیس  اور مجسٹریٹوں کو آگاہی فراہم کرنا چاہیے تاکہ ہندو لڑکیوں اور خواتین کو انصاف کی فراہمی یقینی طور پر ممکن ہو سکے۔