1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے یہودی ووٹر کہاں گئے؟

20 جون 2018

سن دو ہزار تیرہ میں ہونے والے گزشتہ قومی انتخابات میں پاکستان کے یہودی ووٹروں کی تعداد آٹھ سو نو تھی۔ لیکن جولائی میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات کے لیے ووٹروں کی لسٹوں میں ایک بھی یہودی شامل نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/2zubH
Deutschland Demonstration gegen Antisemitismus in Berlin | Berlin wears kippa
تصویر: Reuters/F. Bensch

ان اعداد و شمار کے مطابق، پانچ برسوں میں سینکڑوں یہودی ووٹروں کا سرے سے غائب ہو جانا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ آخر یہودی ووٹر کہاں گئے؟ ڈی ڈبلیو کی تحقیق کے مطابق پاکستان کے کسی متعلقہ ادارے کو یہودی شہریوں کی حقیقی تعداد کا اندازہ نہیں۔ سچ یہ ہے کہ بیشتر یہودی شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں اور جو یہاں موجود ہیں وہ ووٹر کے طور پر رجسٹریشن کے ذریعے اپنی شناخت کو ظاہر کرنا نہیں چاہتے۔ پاکستان میں انتہا پسندی ملک کی غیر مسلم برادریوں میں  عدم تحفظ کا شدید احساس پیدا کر رہی ہے اور وہ بطور شہری اپنے رائے دہی کے بنیادی حق سے بھی دست بردار ہو رہے ہیں۔  

بیس کروڑ سے زائد آبادی میں پانچ فیصد سے کم تناسب کی حامل غیر مسلم آبادی کے رجسٹر ووٹوں کی تعداد چھتیس لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں  ہندو، مسیحی، احمدی، سکھ، بدھ، پارسی اور زکری جیسے بڑے گروپ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ چھوٹے غیر مسلم گروہوں میں مقامی یہودی بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں یہودیوں کی مجموعی آبادی کا اندازہ ایک ہزار سے بھی کم لگایا جاتا ہے۔

اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے حقائق جاننے کے لیے جن پاکستانی حکام سے رابطہ کیا، انہوں نے کہا کہ حال ہی میں جو تازہ ترین ووٹرز لسٹیں جاری کی گئی تھیں، ان کی بنیاد سن دو ہزار سترہ کی مردم شماری کو بنایا گیا تھا۔ اس مردم شماری میں صرف پانچ بڑے مذہبی اقلیتی گروپوں کے افراد کی گنتی کی گئی تھی، جن میں ہندو، مسیحی، احمدی، پارسی اور سکھ شامل تھے۔ باقی تمام چھوٹی چھوٹی مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو چھٹے یعنی ’دیگر‘ کے خانے میں ڈال دیا گیا تھا۔ یوں پاکستان الیکشن کمیشن کے پاس اس بات کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں کہ ملک میں اگر کوئی یہودی اقلیتی ووٹرز ہیں، تو ان کی تعداد کتنی ہے۔

محکمہ مردم شماری کا موقف

اس بارے میں ڈوئچے ویلے نے پاکستان میں مردم شماری کے محکمے کے ترجمان حبیب اللہ خٹک سے جب تفصیلات دریافت کیں، تو انہوں نے کہا، ’’ہمارے پاس پاکستانی یہودیوں کا کوئی علیحدہ ڈیٹا نہیں ہے۔ ہم نے صرف مذہبی برادریوں پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔ سب سے پہلے اکثریتی مسلم آبادی، پھر اقلیتوں میں سے ہندو، مسیحی، پارسی اور قادیانی۔ باقی سب کو مشترکہ طور پر ’دیگر‘ کے خانے میں رکھا گیا تھا۔ اس لیے ہمارے پاس ایسے کوئی اعداد و شمار ہیں ہی نہیں، جو بتا سکیں کہ پاکستان میں یہودیوں کی کل آبادی کتنی ہے۔‘‘

پاکستان کے ’آخری یہودی‘ کو سامیت مخالف جذبات پر شکایت

حبیب اللہ خٹک نے م‍زید بتایا کہ مردم شماری سے متعلق جو اعداد و شمار اب تک میڈیا میں آئے ہیں یا غیر سرکاری طور پر جاری ہوئے ہیں، وہ بھی حتمی نہیں ہیں۔ اس لیے کہ پاکستان کی مشترکہ مفادات کی کونسل یا سی سی آئی نے مئی کے آخر میں گزشتہ مردم شماری کے نتائج کی منظوری کو آئندہ عام انتخابات کے بعد تک کے لیے ملتوی کر دیا تھا۔ خٹک نے کہا، ’’ہمارے پاس اسی لیے مقامی یہودی آبادی سے متعلق کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔‘‘

الیکشن کمیشن کا نقطہ نظر

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر میڈیا ریلیشنز الطاف احمد نے ڈی ڈبلیو سے  گفتگو کرتے ہوئے کہا’’یہودی ووٹروں کے بارے میں ہم نے ابھی تک کوئی ووٹرز لسٹ ہی جاری نہیں کی تو اعداد و شمار کا پتہ کیسے چلایا جا سکتا ہے؟ ہم ابھی اس پر کام کر رہے ہیں۔ جب اعداد و شمار مکمل ہو جائیں گے، تو ووٹرز لسٹیں دوبارہ جاری کی جائیں گی۔ اس میں ابھی کم از کم بھی دس دن لگ سکتے ہیں۔‘‘

الطاف احمد نے الیکشن کمیشن کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستانی یہودی بھی اسی ریاست کے شہری ہیں۔ چاہے کوئی مسلمان ہو، یا غیر مسلم، اگر اس کے پاس شناختی کارڈ ہے، تو وہ ووٹر ہے اور اس کا اندراج کیا ہی جائے گا۔ جہاں تک ووٹروں کی فہرستیں جاری کرنے کی بات ہے، تو مکمل ہوتے ہی وہ جاری کر دی جائیں گی۔ پھر پتہ چل سکے گا کہ پاکستان میں یہودی ووٹروں کی تعداد نو سو ہے، ایک ہزار، یا جتنی بھی۔ یہ تو ڈیٹا مکمل ہونے کے بعد ہی واضح ہو سکے گا۔‘‘

ایک بزرگ یہودی شہری کی شکایت

اس حوالے سے کسی یہودی شہری سے رابطہ کرنا اور ان کی رائے جاننا ایک صبر آزما مرحلہ ثابت ہوا۔ ڈوئچے ویلے نے جن پاکستانی یہودیوں سے رابطہ کیا، ان میں سے صرف ایک بزرگ شہری انٹرویو دینے پر راضی ہوئے اور وہ بھی اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر۔

پاکستان کے اس بزرگ یہودی شہری کی عمر بہتر برس ہے اور وہ راولپنڈی کے ایک پرانے اور گنجان آباد علاقے میں رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’’ایک وقت تھا جب قریب تیس سال پہلے تک بھی پینتالیس کے لگ بھگ یہودی خاندان راولپنڈی، اسلام آباد اور گجرخان میں رہائش پذیر تھے۔ میرے اپنے خاندان سمیت کئی یہودی گھرانے نقل مکانی کر کے یورپ، امریکا یا جنوبی افریقہ میں آباد ہو چکے ہیں۔ کم از کم چھ یہودی خاندان کراچی منتقل ہو چکے ہیں۔‘‘

ان کے مطابق، ’’ایک ایسے معاشرے میں، جو واضح طور پر مذہبی بھی ہو اور جہاں شدت پسند مسلم گروہ فرقہ واریت کو فروغ بھی دیتے ہوں، وہاں مذہبی اقلیتوں کے لیے اپنے عقیدے کے مطابق محفوظ اور کھلے عام زندگی گزارنا بالعموم مشکل ہوتا ہے۔ ہم یہودیوں کے لیے تو ایسی زندگی تقریبا ناممکن ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’ستر کی دہائی تک راولپنڈی میں دو یہودی عبادت گاہیں (سینےگوگ) موجود تھے۔ مگرچند یہودی خاندانوں کے شہر میں مقیم ہونے کے باوجود یہ عبادت گاہیں اس لیے بند ہو گئیں ہمارے مذہبی رہنما یعنی ربی ہی دستیاب نہیں تھے۔

یہودیوں نے خود کو بطور ووٹر رجسٹر کرانا اس لیے چھوڑ دیا کہ کسی یہودی کے لیے کسی مخصوص نشست پر الیکشن لڑنا اور بطور ووٹر ایسے کسی انتخابی امیدوار کو جا کر ووٹ دینا اب فرقہ واریت اور شدت پسندی کے دور میں کوئی قابل عمل سوچ رہی ہی نہیں۔‘‘

سیاسی دلچسپی کم کیوں ہوئی؟

اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ راولپنڈی شہر کے ایک محلے میں گزار دینے والے اس پاکستانی اقلیتی شہری نے مقامی یہودیوں کی سیاست میں بہت کم دلچسپی کی وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں یہودی طبقہ تو ویسے ہی کبھی سیاسی طور پر فعال نہیں رہا۔ مگر ضیاالحق کی آمریت کے بعد بحال ہونے والی جمہوریت کے غیر مستحکم ہونے کی وجہ سے اور تقریبا سبھی سیاسی جماعتوں کی مقامی یہودیوں میں عدم دلچسپی کے باعث سیاست میں ہماری اپنی دلچسپی بھی تقریبا ختم ہی ہو چکی ہے۔ میں نے خود آخری مرتبہ اپنا ووٹ انیس سو نوے کے عام انتخابات میں ڈالا تھا۔ اس کے بعد بطور ووٹر الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش ہی ختم ہو گئی۔‘‘

اجتماعی احساس ذمہ داری کا فقدان

اگر پانچ سال پہلے پاکستان میں آٹھ نو سو یہودی ووٹر موجود تھے اور آج ایک بھی نہیں، تو یہ بات ریاست اور معاشرے کے لیے کس حد تک تشویش کا باعث ہونی چاہیے؟

 اقوام متحدہ سے منسلک پاکستانی ماہر عمرانیات ذوالفقار راؤ کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمارے اندر اس حوالے سے اجتماعی شعور اور احساس ذمہ داری کا فقدان کا ہے۔ ان کے مطابق ''ہمیں اجتماعی طور پر اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ ہمارے ملک میں آباد غیر مسلم شہری کس حال میں زندہ ہیں، جی بھی رہے ہیں یا مر رہے ہیں یا ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہم جیسے بھی ہیں، درست ہیں۔

پاکستان کا واحد یہودی قبرستان، گم شدہ اقلیت کی بدحال میراث

ان کا کہنا تھا کہ ’’کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر پارسی، احمدی یا دیگر اقلیتیں ملک چھوڑ کر جا رہی ہیں، تو شاید وہ اسی کی حقدار ہیں کہ پاکستان کو خیرباد کہہ دیں۔ یہی وہ عمومی رویے ہیں، جن کی وجہ سے اب پاکستان میں یہودی آبادی تو تقریبا ختم ہی ہو گئی ہے۔ مسئلہ صرف پاکستانی یہودیوں کا نہیں، پارسیوں اور احمدیوں کا بھی ہے۔ اس پہلو سے تو کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ پہلے کراچی، لاہور اور ملتان میں بھی بہت سے پارسی رہا کرتے تھے۔ وہ اب کہاں گئے؟ یہ بات تازہ ووٹرز لسٹوں میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ تو کوئی سوچتا ہی نہیں کہ جو اقلیتی باشندے پاکستان چھوڑ کر جا رہے ہیں، وہ بھی پاکستانی شہری ہیں۔‘‘

ذوالفقار راؤ کے مطابق اس صورت حال پر حکومت کو تشویش ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’مذہبی برداشت کی ترویج کے لیے قائم ایک امریکی ادارے نے گزشتہ مارچ میں پاکستان کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کر لیا تھا، جہاں مذہبی آزادیاں خطرے میں ہیں۔ اسی وجہ سے کئی ممالک پر مختلف پابندیاں بھی لگ رہی ہیں۔ پاکستان کو اگر اس وقت دنیا میں مذہبی برداشت اور غیر مسلموں کے تحفظ کے حوالے سے عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، تو اس کی بڑی وجوہات میں ملک میں ان کی دگرگوں صورت حال بھی شامل ہے۔ اس میں بہت زیادہ عمل دخل انتہا پسندی کا بھی ہے، سفارتی اور اقتصادی طور پر یہ صورت حال پاکستان کے لیے اچھی نہیں ہے۔ اس حوالے سے حکمرانوں کو گہری تشویش ہونی چاہیے اور انہیں جلد از جلد اس کا حل بھی نکالنا چاہیے۔‘‘