1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمپاکستان

پاکستانی ادارے انسانی اسمگلنگ روکنے میں نا کام کیوں؟

19 جون 2023

یونان کشتی حادثے میں بڑی تعداد میں پاکستانی تارکین وطن کی ہلاکت کے خدشات کے بعد حکومتی اداروں کی کارکردگی سخت تنقید کی زد میں ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بہتر حکمت عملی سے انسانی اسمگلنگ میں بڑٰی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4Sld2
Griechenland | Schiffsunglück bei Kalamata
تصویر: Eurokinissi/REUTERS

یونان میں غیر ملکی تارکین وطن کی کشتی کو پیش آنے والے حالیہ حادثے میں ہلاک ہونے والے پاکستانی شہریوں کے رشتہ دار جہاں غم سے نڈھال ہیں وہیں ہر زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ آخر متعلقہ سرکاری ادارے انسانی اسمگلنگ  روکنے میں مسلسل ناکام کیوں ہیں؟

یونان کشتی سانحہ: پاکستان میں آج قومی سوگ منایا جا رہا ہے

یورپ داخل ہونے کے لیے پُر خطر سمندری راستوں کا انتخاب کرنے والوں کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ ان کے عزیز ایک بہتر زندگی کی تلاش میں تھے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اداروں کے درمیان تعاون اور رابطے کا فقدان اور حکومت کا غیر سنجیدہ رویہ اس طرح کے سانحات کو بار بار جنم دیتا ہے۔

Griechenland I Migration
کشتی کے حادثے میں بچ جانے والے پاکستانی تارکین وطن کے ایک گروپ کو ہلال احمر کے کیمپ میں ابتدائی طبی امداد مہیا کی گئیتصویر: Thanassis Stavrakis/AP/picture alliance

 خبر کا انتظار

چک نمبر 285 آر۔ بی تحصیل صفدر آباد ضلع شیخو پورہ کا ایک گاؤں ہے، جہاں کا رہائشی 25 سالہ رومیل اکرم تقریباً ایک ماہ پہلے بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ کے سفر پر نکلا تھا. رومیل اکرم کے انچاس سالہ کزن شبیر حسین، جو فیصل آباد کے رہائشی ہیں، کا کہنا ہے کہ اب رومیل کا کچھ پتہ نہیں چل پا رہا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''قوی امکان یہی ہے کہ رومیل بھی اس بدقسمت کشتی میں تھا، جو  ڈوب گئی ہے لیکن ایجنٹس ابھی تک یہی تسلی دے رہے ہیں کہ وہ زندہ ہے۔ گھر والے بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں کہ اس کے حوالے سے کوئی خبر آئے۔‘‘

لیبیا میں دو کشتیاں ڈوبنے سے درجنوں تارکین وطن ہلاک

محرک پیسہ کمانا

شبیر حسین کا کہنا ہے کہ رومیل اکرم کے گاؤں کے تقریبا 45 افراد پہلے ہی اسپین، جرمنی، اٹلی اور سوئٹزر لینڈ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے کہا،''جو لوگ ان یورپی ممالک میں پہلے سے منتقل ہو چکے ہیں اب ان کی زندگی میں کافی حد تک خوشحالی آگئی ہے۔ وہ شادی بیاہ پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کرتے ہیں جبکہ گاؤں میں انہوں نے کوٹھیاں بھی بنا لی ہیں. اس خوشحالی کو دیکھ کر گاؤں کے بہت سارے نوجوان بضد ہیں کہ انہیں بھی ہر صورت  یورپ جانا ہے۔‘‘

تیونس: کشتی کے حادثے میں مرنے والوں کی تعداد پچیس ہو گئی

رومیل کی ضد

شبیر حسین کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے پہلے انہوں نے رومیل اکرم کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ بہت خطرناک راستہ ہے اور اس میں موت کے علاوہ کچھ نہیں ملتا. تاہم حسین کے بقول، ''رومیل کی حجت یہ تھی کہ سینکڑوں کشتیاں جاتی ہیں اور اس میں کوئی ایک آدھ حادثے کا شکار ہوتی ہے اور یہ کہ اس کے گاؤں کے بہت سارے لوگ پہلے ہی وہاں آرام سے پہنچ گئے ہیں تو وہ بھی آرام سے جا سکتا ہے۔‘‘

ایک اور کشتی سمندر میں ڈوب گئی، کم از کم انتیس تارکین وطن ہلاک

گاؤں میں کہرام

شبیر حیسن کے مطابق رومیل اکرم کے گاؤں میں کہرام مچا ہوا ہے۔ ''رومیل کی بوڑھی والدہ اس کی راہ تک رہی ہیں جب کہ خاندان کے سارے افراد والدین کو آکر تسلیاں دے رہے ہیں. رومیل کا ایک بھائی پہلے ہی سوئٹزر لینڈ میں ہے۔ وہ بھی بے چینی سے اس کے حوالے سے  کسی بھی خبر کا انتظار کر رہا ہے۔ تاہم فی الحال میرے کزن کا نام بھی ان لوگوں میں شامل ہے، جو ابھی تک گمشدہ ہیں۔‘‘

Griechenland | Schiffsunglück bei Kalamata
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستانی تارکین وطن غیر قانونی طریقے سے سمدر کے راستے یورپ داخل ہونے کی کوشش میں مارے گئے ہوںتصویر: Stelios Misinas/REUTERS

انسانی اسمگلنگ روکنے میں ناکامی

گزشتہ چار دہائیوں میں کئی ایسے واقعات ہوچکے ہیں، جس میں غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے والے پاکستانی سمندر کی طوفانی لہروں کی نذر ہو ئے ہیں. ایسے پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف علاقوں سے ہے۔

اس کے علاوہ پنجاب کے اضلاع منڈی بہاوالدین، گجرات اور جہلم سے بھی کئی افراد غیر قانونی طور پر باہر جانے کی کوششیں کرنے والوں میں شامل ہیں۔ اب خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے بھی لوگ یورپی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

چند مہینے پہلے کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کی قومی ہاکی ٹیم کی ایک کھلاڑی شاہدہ رضا بھی اسی نوعیت کے ایک  حادثے کا شکار ہوئی تھی.  حادثے کے بعد حکومت تھوڑی بہت حرکت کرتی ہے لیکن انسانی اسمگلنگ کے اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث افراد کو گرفت میں نہیں لایا جاتا.

 سکیورٹی امور کے ماہر اور سابق انسپیکٹر جنرل سندھ پولیس افضل علی شگری کا کہنا ہے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے متعلقہ سرکاری اداروں میں رابطے کا فقدان ان چند عوامل میں سے ایک ہے، جس کی بنا پر ان اسمگلروں کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔

اٹلی کے بعد لیبیا میں بھی کشتی حادثہ، تین پاکستانی ہلاک

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”دوہزار دو میں ہم نے نیشنل پولیس مینجمنٹ بورڈ قائم کیا تھا، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ایف آئی اے، پولیس اور دوسرے اداروں کے درمیان رابطے ہوں کیونکہ زیادہ ترلوگوں کو بلوچستان کے ذریعے ایران اور وہاں سے ترکی اور پھر وہاں سے دوسرے ممالک لے جایا جاتا ہے۔‘‘

اسمگلروں کو پکڑنے میں مشکلات

افضل علی شگری کا کہنا تھا، ''اس طرح کے اسمگلرز کا تعلق صرف پاکستان سے نہیں۔ بلکہ وہ لیبیا، ترکی، ایران اور دوسرے ممالک میں بھی موجود ہیں۔ اس لیے ان کو پکڑنا نسبتاً مشکل ہے لیکن اگر پاکستانی ایجنٹوں کو پکڑ لیا جائے تو ان سے بہت ساری معلومات مل سکتی ہیں، جس کو دوسرے ممالک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ شیئر کیا جا سکتا ہے اور اس طرح وہاں ان پر بھی کریک ڈاؤن ہو سکتا ہے.‘‘

اٹلی میں پاکستانی تارکین وطن کی ممکنہ ہلاکت پر شہباز شریف کا اظہار تشویش

انہوں نے مزید کہا، ''انسانوں کی غیر قانونی اسمگلنگ میں ملوث زیاہ تر ایجنٹوں کا گڑھ گجرات اور منڈی بہاوالدین ہیں۔ اگر ان علاقوں میں سختی کی جائے اور یہاں سے ایجنٹوں کو پکڑا جائے، تو ان سے ساری معلومات حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن حکومت میں سنجیدگی کا فقدان ہے اس وجہ سے اس طرح کے حادثات باربار رونما ہو رہے ہیں۔‘‘

غیر قانونی مہاجرت: ایک پاکستانی نوجوان کا جان لیوا سفر